جو امت حضورؐ کی توہین پر کچھ نہ کر سکے اسے مرجانا چاہیے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

آپ نے جو رولز جمع کروائے اس سے ایسا لگتا ہے کہ جو آدمی متاثر ہے صرف وہی شکایت درج کروا سکتا ہے،کیا یہ کوئی سیکولر حکومت ہے، جس نے یہ رولز منظور کیے؟ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے ریمارکس

Shehryar Abbasi شہریار عباسی جمعرات 3 دسمبر 2020 19:41

جو امت حضورؐ کی توہین پر کچھ نہ کر سکے اسے مرجانا چاہیے، چیف جسٹس لاہور ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔03 دسمبر2020ء) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ جو امت حضورؐ کی توہین پر کچھ نہ کر سکے اسے مرجانا چاہیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے انبیا کرام اور صحابہ کرام کی توہین آمیز پوسٹوں کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے انبیا کرام اور صحابہ کرام کی توہین آمیز پوسٹوں کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ جو امت حضورؐ کی توہین پر کچھ نہ کر سکے اسے مرجانا چاہیے۔

سماعت کے دوران عدالت نے توہین رسالت اور مقدس ہستیوں کی توہین سے متعلق رولز پیش کرنے کا حکم دیا۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کے خلاف گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے، جبکہ سائبر کرائم رولز میں شکایات کے اندراج اور کارروائی کا ذکر موجود ہے۔

(جاری ہے)

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے اس جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی سیکولر حکومت ہے جس نے یہ رولز منظور کیے، آپ نے جو رولز جمع کروائے اس سے ایسا لگتا ہے کہ جو آدمی متاثر ہے صرف وہی شکایت درج کروا سکتا ہے۔

یہاں مقدس ہستیوں کی توہین کی بات ہو رہی ہے ۔ جسٹس قاسم خان نے کہا کہ ’’میں تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے معاملے میں بڑا کلیئر ہوں، اگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی پر لوگ مقرر کر رکھے ہیں تو حضورؐ کا معاملہ بھی تو قانون میں شامل ہے‘‘۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسی معاملے پر 9 مقدمات درج کیے ہیں، عدالت اس معاملے پر معاونت فراہم کرنے کے لیے مہلت دے۔ اٹارن جنرل کی درخواست پر عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی ہے۔