آسٹریلوی فوج کے افغانستان میں جنگی جرائم بڑے عالمی تنازعے کا سبب بن سکتے ہیں.عالمی ماہرین

دنیا نے ہزاروں نہتے افغانیوں کے قتل عام کو سنجیدگی سے نہ لیا تو عالمی ادارے اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو بیٹھیں گے‘چین اور روس افغانستان میں امریکا کی زیرقیادت نیٹوافواج کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں ‘پاکستان سمیت مسلم دنیا خاموشی اختیار کیئے بیٹھی‘ یہ ایک اعتراف ہے کہ نیٹوافواج جنگی جرائم میں ملوث رہیں‘ نیٹو افواج کی افغانستان میں جنگی جرائم کے حوالے سے ان کی ابتدائی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی تو زبردست مزاحمت اوردباﺅ کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اب ”اعتراف جرم“سے وہ درست ثابت ہوچکی ہیں. ہیومن رائٹس واچ کی ڈاکٹر کروپویویٹس کا انٹرویو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 5 دسمبر 2020 12:21

آسٹریلوی فوج کے افغانستان میں جنگی جرائم بڑے عالمی تنازعے کا سبب بن ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-میاں محمد ندیم کی خصوصی تحقیقاتی رپورٹ ۔05 دسمبر ۔2020ء) آسٹریلوی فوجیوں کی جانب سے نہتے اور بیگناہ افغان بچوں‘عورتوںاور بزرگوں سمیت سویلینزکے قتل عام کے مناظر سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں نئی بحث چھڑ گئی ہے جوکہ افغان تناظر میں عالمی طاقتوں کے درمیان نیا تنازعہ پیدا کرسکتی ہے . افغانستان میں امریکا اور نیٹوفورسزکے جنگی جرائم پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے تاہم تازہ ترین تصاویرنیٹو اتحاد میں شامل آسٹریلوی فوجیوں کی ہیں جو ممکنہ طور پر آسٹریلوی فوجیوں نے ہی بنائی تھیں اور انہیں آسٹریلوی فوجیوں کی جانب سے ہی لیک کیا گیاہے.

(جاری ہے)

اس سلسلہ میں دنیا کی دوبڑی طاقتیں چین اور روس افغانستان میں جنگی جرائم کی عالمی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ آسٹریلیا کو امریکی حمایت حاصل ہے کیونکہ امریکی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے رواں سال مارچ میں افغانستان میں امریکا کی زیرقیادت نیٹو اتحادی افواج کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا حکم دیا تھا. ماہرین کا کہنا ہے امریکا اس وجہ سے آسٹریلیا کے ساتھ کھڑا ہے کہ اگر یہ پنڈورا باکس کھلتا ہے توامریکا کی فوج کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا تاہم یہ امرتشویشناک ہے کہ چین کا اہم تزوراتی اتحادی پاکستان نے اس نئے سکینڈل سے پیدا ہونے والے بحران سے خود کو دور رکھا ہوا ہے اور ابھی تک پاکستانی وزارت خارجہ نے اس کی رسمی مذمت بھی نہیں کی.

آسٹریلیا اور چین کے درمیان کشیدیدگی اس وقت بڑھی جب چین رواں ہفتے کے دوران چینی حکومتی کے سرکاری ٹوئٹراکاﺅنٹ سے ان تصاویر کو شیئرکیا گیا جس کے جواب میں آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے اسے ”غیرذمہ درانہ “عمل اور اپنے ملک کے ”اندرونی معاملات“میں دخل قراردیتے ہوئے ان تصاویر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاﺅ نے اپنی جوابی ٹویٹ میں کہا کہ میں آسٹریلوی فوجیوں کی جانب سے افغان شہریوں اور قیدیوں کے قتل کرنے پر سکتے میں ہوں ہم سخت الفاظ میں اس کی مذمت کرتے ہیں اور ان کا احتساب کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں.

آسٹریلوی وزیراعظم جو امریکی صدر ٹرمپ کی طرح سفید فام انتہاپسندوں کی عالمی تنظیم کے بہت بڑے حامی ہیںنے تسلیم کیا کہ چین اور آسٹریلیا کے مابین بلا شبہ کشیدگی ہے لیکن ”اس طرح سے معاملات سے نہیں نمٹا جاتا“انہوں نے چین کو تنبیہ کی کہ دیگر ممالک چین کا آسٹریلیا کی جانب برتاﺅ غور سے دیکھ رہے ہیں اس سے قبل آسٹریلیا نے صدر ٹرمپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مطالبہ کیاتھا کہ چین کے خلاف کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کے حوالے سے تحقیقات کی جانی چاہیے.

ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کی تحقیقات محض ایک بہانہ ہیں کیونکہ چین طویل عرصے سے افغانستان میں امریکا کی زیرقیادت نیٹواتحادی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی برادی کی توجہ دلا رہا ہے واضح رہے کہ آسٹریلیا نے رواں سال عالمی دباﺅ پر ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا جس کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا تھاکہ25 آسٹریلوی فوجی 2009 سے 2013 کے درمیان 39 افغان شہریوں کے قتل میں ملوث رہے ہیں تاہم آسٹریلین ڈیفنس فورس کی جانب سے کی گئی ان تحقیقات کے شائع ہونے کے بعد یہ معاملہ صرف مذمت اور معمول کی پولیس تفتیش تک محدودرہا.

حالانکہ آسٹریلیا کی اپنی رپورٹ میں کہا گیا تھا” انہیں غیر قانونی طور پر قتل کرنے کے ”مصدقہ شواہد“ ملے ہیں اور فوج کے ایلیٹ یونٹس میں جنگجو کلچرکا ماحول دیکھا گیا ہے رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ جونئیر فوجیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ وہ قیدیوں کو گولی مار کر قتل کریں رپورٹ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے ان الزامات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ نہتے معصوم سویلین شہریوں کوقتل کرکے ان کے گرد اسلحہ سجاکر ”خاص ماحول“پیدا کیا جاتا تھا ( یہ تاثر دینے کے لیے کہ مارے جانے والے ”جنگجو“تھے جو فوجی ”کاروائی“کے دوران ہلاک ہوئے) .

معاملہ سنگین اس وقت ہوا جب یہ انکشاف سامنے آیا کہ آسٹریلوی فوجیوں نے نوعمر بچوں کو قتل کرکے ان کی لاشوں کو دریا میں بہادیاافغانستان کی جنگ میں جن غیر نیٹو اتحادی ممالک نے امریکی فوج کے شانہ بشانہ حصہ لیا ان میں آسٹریلیا صف اول کا ملک ہے بلاشبہ انسانی حقوق کی ان کی کھلی خلاف ورزیوں پر عالمی ذرائع ابلاغ پر آنے والی ان رپورٹس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حامیوں کو چونکا اور لرزا کر رکھ دیا جبکہ آسٹریلوی فوج کی سنیئرقیادت کی جانب سے اسے ڈھٹائی سے”گرم جنگی کلچر“قراردے کر مظالم کا شکار ہونے والے مظلوم افغان خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی.

حالانکہ یہ نسلی تعصیب کی بنیاد پر بیگناہ انسانوں کا قتل عام اور سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب ہے جو آسٹریلوی فوج کی جانب سے کیا گیاافغانستان میں سنگین جنگی جرائم کی جہاں دنیا میں مذمت کی جارہی ہے وہیں حکومت پاکستان خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہے اور ہفتہ میں دو‘تین بار صحافیوں سے گفتگو کرنے والے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی یا سچ بات کہنے کے دعویدار وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایک لفظ بھی سامنے نہیں آیایہ صورتحال انسانی حقوق کے حلقوں کیلئے باعث تشویش بھی ہے کیونکہ ایک ایسے ایشو پر جسے آسٹریلوی حکومت خود تقریبا تسلیم کرکے تحقیقات کرارہی ہے اور جس معاملے کا تعلق پاکستان کے سرحدی ہمسائیہ ملک کے انسانی حقوق سے ہے تو اس پر اسلام آباد کی جانب سے خاموشی حیران کن سمجھی جارہی ہے.

آسٹریلوی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اس وقت آسٹریلیائی دفاعی فورس سے کسی بھی فرد کو الگ نہیں کیا گیا ہے جبکہ ایک جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو فوجیوں کو پہلے ہی برخاست کردیا گیا ہے وہ کھیت میں ایک افغان شخص کے قتل کے گواہ تھے یہ معاملہ ٹی وی کی تحقیقات کا موضوع تھا چشم دیدگواہان کو برخاست کردیا گیا ہے تاہم ابھی ان واقعات میں ملوث کسی فرد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی اس بارے میں اسکاٹ موریسن کا کہنا ہے کہ تفتیش میں ممکنہ مجرمانہ مقدمات کی سماعت سے کئی سال لگ سکتے ہیں .

اس سلسلہ میں جو انکوائری رپورٹ سامنے آئی ہے اس کے لیے آسٹریلیا کی فوج کے میجر جنرل جسٹس پال بریریٹن کو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں اس انکوائری میں تسلیم کیا گیا کہ نہتے افغانیوں پر ”نشانہ بازی کی مشق“ کے لیے فوج کے سنیئرافسران نئے تعینات ہونے والے فوجیوں کو حکم جاری کرتے تھے آسٹریلیا نے جونیئرفوجیوں کے خلاف تحقیقات کا تو حکم جاری کیا ہے تاہم انہیں حکم جاری کرنے والے سنیئرفوجی افسران کے بارے میں انکوائری رپورٹ خاموش ہے.

واضح رہے کہ 2002میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعدسے آسٹریلیا کی افواج افغانستان میں موجود ہیں ابتدا میں بین الاقوامی افواج کا کردار افغان فوجیوں کی تربیت کرنا تھا لیکن پھر وہ لڑائی میں شامل ہوگئیں کیونکہ نیٹو کی کارپٹ بمباری اور فضائی مدد کے باوجود شمالی اتحاد کی مختلف قبائل میں منقسم بکھری ہوئی ٹولیاں منظم اندازمیں گوریلا جنگ لڑنے والے طالبان جنگجوﺅں کے خلاف مکمل ناکام رہی تھیں .

ادھر ہیومن رائٹس واچ کی ڈاکٹر کروپویویٹس نے ایک عالمی نشریاتی ادارے سے اس سلسلہ میں گفتگو کے دوران کہا کہ یہ ایک اعتراف ہے کہ نیٹوافواج جنگی جرائم میں ملوث رہیں‘ڈاکٹر کروپویویٹس نے کہا کہ انہیں یاد ہے جب نیٹو افواج کی افغانستان میں جنگی جرائم کے حوالے سے ان کی ابتدائی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی تو انھیں زبردست مزاحمت اوردباﺅ کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اب ”اعتراف جرم“سے وہ درست ثابت ہوچکی ہیں انہوں نے کہا کہ افغانستان ہی نہیں عراق اور لیبیا سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں نیٹوکی ”بہادری “کی ایسی داستانیں بھری پڑی ہیں.

انہوں نے کہا کہ یہ کیسا مذاق ہے کہ دفاعی چیف کی زبان اس کہانی کا ایک حصہ تھی جیسا کہ وہ خود انکشافات کر رہے ہوں پھر انہوں افغان عوام سے معافی مانگ کر آغاز کیا اور ساتھ ہی آسٹریلیائی عوام سے کہا کہ انہیں اپنی خصوصی افواج سے بہتر کی توقع کرنے کا حق حاصل ہے انہوں نے کچھ فوجیوں کے اعمال اور اس” ثقافت“ کو بیان کرتے ہوئے شرمناک ، پریشان کن اور زہریلے الفاظ استعمال کیے اس رپورٹ میں آسٹریلوی حکومت اور افواج کے مابین مسابقت کی فضا نظرآتی ہے انہوں نے کہا کہ یہ تو رپورٹ کے محض کچھ حصے ہیں جو جاری کیئے گئے ہیںہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آسٹریلیا پوری تحقیقاتی رپورٹ سامنے لے کرآئے.

واضح رہے کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ(آئی سی سی)2016سے اس معاملے کی تحقیقات کرنا چاہ رہی ہے مگر دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے اثرورورسوخ کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا 2003میں ان عالمی طاقتوں نے آئی سی سی سے جنگی جرائم کی تحقیقات روکنے کے حق میں فیصلہ لیا تھا اپریل 2019 میں ٹرائل سے پہلے آئی سی سی کے ایک بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ مذکورہ تحقیقات کو روک دیا جائے کیوں کہ ان سے ”انصاف کے تقاضے“پورے نہیں ہو پائیں گے آئی سی سی کی چیف پروسیکیوٹر فاتو بینسودا 2017 سے ان جنگی جرائم کی باضابطہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں .

ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ برس نہ صرف فاتو بینسودا کو ان کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا کر نیویارک میں ایک اہم اجلاس میں شرکت سے روک دیا تھابلکہ آئی سی سی کے تمام حکام پر سفری اور دوسری پابندیاں عائد کر تے ہوئے صدر ٹرمپ نے افغانستان میں جنگی جرائم کے جرم میں امریکی عدالتوں سے سزایافتہ فوجیوں کو بھی معاف کر کے دنیا کو پیغام دیا کہ امریکا اور نیٹو دنیا کے کسی ضابطے یا انسانی حقوق کو نہیں مانتے.

جرائم کی عالمی عدالت پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ اس نے چھوٹے ملکوں کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات میں بہت وقت صرف کیا ہے اور جب بات طاقتور اقوام کی ہو تو آئی سی سی نظریں چرا لیتی ہے اس حوالے سے افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے کا اس کا فیصلہ اہم ہے لہذا یہ مشکل نظرآرہا ہے آسٹریلیا کو جنگی جرائم میں جرائم کی عالمی عدالت میں کھڑا کیا جاسکے گا کیونکہ امریکا اس راستے کو نہیں کھولنا چاہتا.

عالمی امورکے ماہرین کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ روس اور چین اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جاسکتے ہیں اور سلامتی کونسل کے ذریعے نیٹو اتحادیوں پر دباﺅ کو بڑھایا جاسکتا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات پیش نہ آئیں اور متاثرہ افغان خاندانوں کو خون بہا اداکروانے کے لیے امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو مجبور کیا جاسکے.