Live Updates

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اضافی نظرثانی درخواست 8 دسمبر کوسماعت کیلئے مقرر

علم نہیں کہ زلفی بخاری، شہزاد اکبر، یار محمد رند، ندیم بابر، عاصم باجوہ، شہباز گل، فیصل واوڈا اور عثمان ڈار نے بیرون ملک جائیدادوں کو ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کیا یا نہیں، عمران خان ان کی بیویاں بچے اثاثوں پر جوابدہ نہیں، ان کیلئے احتساب کا معیار الگ ہے؟ درخواست میں مئوقف

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ ہفتہ 5 دسمبر 2020 17:38

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اضافی نظرثانی درخواست 8 دسمبر کوسماعت کیلئے ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 دسمبر2020ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے فیصلے سے متعلق اضافی نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر کردی،ع دالت کا 6 رکنی لارجر بینچ 8 دسمبر کو سماعت کرے گا، عمران خان کی حکومت کے کئی عہدیداروں زلفی بخاری، شہزاد اکبر، یار محمد رند، ندیم بابر، عاصم باجوہ، شہباز گل، فیصل واوڈا اور عثمان ڈار کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں، علم نہیں کہ ان جائیدادوں کو ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کیا یا نہیں، کیا ان کیلئے احتساب کا معیار الگ ہے؟ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے فیصلے سے متعلق اضافی نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر کردی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی اپیل 31 صفحوں پر مشتمل ہے، درخواست میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور سپریم جوڈیشل کونسل کے کنڈکٹ کو بدنیتی پر مبنی اورغیرشفاف قراردیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی درخواست میں مئوقف اختیار کیا کہ عمران خان کی حکومت کے کئی عہدیداروں کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں، علم نہیں کہ ان جائیدادوں کو ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کیا یا نہیں، ان میں سید ذوالفقار عباس بخاری، شہزاد اکبر، یار محمد رند، ندیم بابر، عاصم سلیم باجوہ، شہباز گل شامل ہیں، فیصل واوڈا اور عثمان ڈار شامل ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ وزیر اعظم ان کی بیویاں اور بچے اپنے اثاثوں کے بارے میں جوابدہ نہیں لیکن درخواست گزار کی اہلیہ اور بچے جوابدہ ہیں ان کے احتساب کا معیار الگ ہے عمران حکومت کے ان عہدیداروں میں سید ذوالفقار عباس (زلفی) بخاری، یار محمد رند، ندیم بابر، شہباز گل، عاصم سلیم باجوہ، مرزا شہزاد اکبر، فیصل واوڈا اور عثمان ڈار شامل ہیں. انہوں نے اپنی پٹیشن میں لکھا ہے کہ ذوالفقار عباسی کی 45 ولنگٹن روڈ لندن میں فلیٹ نمبر 3 جائیداد ہے، یار محمد رند کی سپرنگ ریذیڈنشل ولا اور انٹرنیشنل سٹی دبئی میں جائیداد ہے، ندیم بابر کا ہوسٹن امریکہ میں گھر ہے، شہباز گل کا امریکہ میں گھر ہے عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ کی امریکہ میں 13 کمرشل اور پانچ رہائشی جائیدادیں ہیں، فیصل واوڈا کی بیرون ملک نو جائیدادیں ہیں لندن میں سات، ملائیشیا اور دبئی میں ایک ایک جائیداد، عثمان ڈار کی برطانیہ کے شہر برمنگھم میں جائیداد ہے۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ صدر مملکت عارف علوی اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے اور ریفرنس دائر کرنے کا تمام عمل قانون و آئین کے خلاف تھا. سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسی کیس میں نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ جس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ 8 دسمبر کو کرے گا اس کیس میں جسٹس فائز عیسی، سیرینا عیسی اور بار کونسلز نے نظرثانی دراخواستیں دائر کی ہوئی ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ان گھر کے دروازے پر نوٹس چسپاں کیے گیے جیسے وہ کوئی اشتہاری ملزم ہیں ان کا مئوقف ہے کہ اس عمل سے ایف بی آر ان کے ڈرائیور، مالی، گارڈ، خانصامے، ججز کالونی میں ہر آنے جانے افراد کے سامنے ان کی توہین کرنے کی مرتکب ہوئی ہے۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کیس میں آئندہ سماعت ٹی وی پر لائیو نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔

کیونکہ ان کا ئموقف ہے کہ سرکاری عہدیداروں نے میرے اور اہلخانہ کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلائی۔ اسی طرح جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی کو بھی بینچ کا حصہ بنایا جائے۔  جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ 19جون 2020 کے فیصلے کے پیرا گراف دو تا گیارہ پر نظر ثانی کر کے واپس لیا جائے۔ انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے بعد ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے اپنی درخواستوں میں مجھے جج کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

انٹرنیشنل پریس ایجنسی کے مطابق جسٹس فائز عیسی نے اپنے مئوقف میں بتایا کہ درخواست گزار جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق ایف بی آر نے ان کی اہلیہ کا موقف نہیں سنا اور یکطرفہ فیصلہ دیا جو آئین میں فیئر ٹرائل کی نفی ہے مقدمے میں اہلیہ فریق ہی نہیں تھیں اور انہیں اس غلطی کی سزا دی گئی جو انہوں نے کی ہی نہیں تھی۔ 18 اپریل کو نوشین جاوید کو ایف بی آر چیئرمین تعینات کیا گیا۔

19 جون کو مختصر فیصلہ آیا اور 4 جولائی کو انہیں تبدیل کر کے پاکستان کسٹمز کے جاوید غنی کو ایف بی آر کے چیئرمین کا اضافہ چارج دے دیا گیا دلچسپ عمل یہ ہے کہ جس دن ان کی تبدیلی کے احکامات جاری ہوئے اس دن ہفتہ وار تعطیل تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایف بی آر کے ایک اہلکار جہانزیب خان کو شہزاد اکبر نے اس لیے تبدیل کیا کہ انہوں نے ان کا اور ان کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ دینے سے انکار کیا تھا انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ شہزاد اکبر اور فروغ نسیم ایف بی آر کو کنٹرول کر رہے ہیں جس کا مقصد انھیں اپنے آئینی عہدے سے ہٹانا ہے. آئین کے آرٹیکل 184 تھری سپریم کورٹ کو بااختیار بناتا ہے، تاہم درخواست گزار کی بیوی کو اس حق سے محروم کیا جا رہا ہے‘انہوں نے لکھا ہے کہ ایف بی آر کے چیئرمین اسی وقت سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کر سکتے ہیں جب سپریم جوڈیشل کونسل انہیں ایسا کرنے کا حکم دے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ایف بی آر کی رپورٹ سے میں اور میری اہلیہ متاثر ہو سکتے ہیں ایف بی آر کی رپورٹ نہ مجھے اور نہ میری اہلیہ کو فراہم کی گئی۔ ایف بی آر کی رپورٹ بھی صدارتی ریفرنس کی مانند میرے اور میری اہلیہ کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کے لیے میڈیا کو لیک کی گئی. پٹیشن میں جسٹس فائز عیسی لکھتے ہیں کہ ایف بی آر کے ٹیکس کمشنر ذولفقار احمد، جو ان کی اہلیہ سرینہ عیسی سے تحقیقات کر رہے تھے وہی شخص تھے جنہوں نے ریفرنس دائر ہونے سے قبل بغیر قانونی اجازت ٹیکس ریکارڈ کی تحقیقات کی لہذا، نئی تحقیقات کے لیے بھی ان کا انتخاب بدنیتی پر مبنی تھا۔

وزیر قانون فروغ نسیم اورشہزاد اکبر نے ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طور پر حاصل کیا اور ایف بی آر کو میرے خلاف رائے دینے پر مجبور کیا چیئرمین ایف بی آر نے سرینا عیسیٰ کی رپورٹ فراہم کرنے سے انکار کیا لیکن رپورٹ میڈیا کو لیک کر دی گئی جسٹس فائز عیسی کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف صدارتی ریفرنس میں جتنی بھی سماعتیں ہوئیں انھیں اس کا حصہ نہیں بنایا گیا جبکہ صرف اس وقت کے اٹارنی جنرل کو سن کر انہیں جواب طلبی کا نوٹس جاری کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ریفرنس کی کاپی سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے درخواست کی کہ کاپی فراہم کی جائے تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے سپریم کورٹ کی عمارت کے لان میں ان کے ساتھ ٹہلتے ہوئے نجی طور پر رازداری سے ریفرنس کے بارے میں بتانے کا مقصد مجھ سے استعفیٰ لینا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب کے بارے میں میری درخواست کے دوسرے حصے کی سماعت ہی نہیں کی۔ اس درخواست میں ان کا مئوقف ہے کہ 19 جون کے فیصلہ سے عدلیہ کی آزادی کو ایگزیکٹو کے ہاتھ میں دے دیا گیا جوکہ آئین کے برخلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کی کاپی انہیں سپریم جوڈیشل کونسل نے فراہم نہیں کی جبکہ اسے بھی لیک کیا گیا۔ یاد رہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں صدارتی ریفرنس پر سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ جاری کیا تھا دس رکنی بینچ میں سے 7ججز نے یہ معاملہ ایف بی ار کو بھیجنے پر اتفاق کیا تھا جبکہ دو ججز نے اس سے اختلاف کیا تھا ایک جج نے جسٹس فائز عیسی کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات