حکومت کے ساتھ مذاکرات بارے سوچ بچار 13 دسمبر کے لاہور جلسے کے بعد ہوگی،خرم دستگیر

اب مذاکرات حکومت کے ساتھ نہیں ہوں گے،کوئی سنجیدہ شخصیات اپنا کردار ادا کریں تو ان کو ضامن کے طور پر لیتے ہوئے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہو سکتے ہیں، آصف سعید کھوسہ اور میاں ثاقب نثار کے علاوہ سابق چیف جسٹس صاحبان ہو سکتے ہیں اپوزیشن نے این ار او مانگا ہے نہ ہی وزیراعظم کے پاس ایسا کرنے کا کوئی اختیار ہے ،بی بی سی سے گفتگو

جمعہ 11 دسمبر 2020 23:48

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 دسمبر2020ء) پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں سوچ بچار 13 دسمبر کے لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد ہوگی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اٴْنھوں نے کہا کہ اب مذاکرات حکومت کے ساتھ نہیں ہوں گے بلکہ اگر کوئی سنجیدہ شخصیات اپنا کردار ادا کریں تو ان کو ضامن کے طور پر لیتے ہوئے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسی کونسی شخصیات ہو سکتی ہیں جو کہ غیر متنازعہ ہوں تو خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس صاحبان ہو سکتے ہیں تاہم ان میں ’سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور میاں ثاقب نثار شامل نہ ہوں‘۔

(جاری ہے)

اٴْنھوں نے کہا کہ ’تصدق حسین جیلانی جیسی شخصیات اب بھی غیر متنازع ہیں‘۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’مذاکرات کا مقصد غیر جمہوری طاقتوں کا سایہ جمہوریت سے ہٹانا ہے جن کی وجہ سے ملک میں جمہوریت پھل پھول نہیں رہی‘۔

اس کے علاوہ اس بات کو ’یقینی بنانا ہے کہ ملک میں آئندہ جب بھی انتخابات ہوں تو اس میں ان غیر جمہوری طاقتوں کا کوئی کردار نہ ہو‘۔وزیراعظم کا یہ الزام کہ حزب مخالف کی جماعتیں این آر او لینے کے لیے اکھٹی ہوئی ہیں، اس پر خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ نہ اپوزیشن کی جماعتوں نے این ار او مانگا ہے اور نہ ہی وزیراعظم کے پاس ایسا کرنے کا کوئی اختیار ہے۔

اٴْنھوں نے کہا کہ نیب کے قوانین میں ترامیم کے حوالے سے حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں کے درمیان جو مذاکرات ہوئے تھے وہ ’فوج کی چھتری کے نیچے ہی ہوئے تھے اور ان اجلاسوں میں ہونے والے مذاکرات کے درمیان ایک مسودے کو بنیاد بناتے ہوئے ان مذاکرات میں شریک وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ دعویٰ کر دیا کہ حزب مخالف کی جماعتیں حکومت سے اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمات کے خاتمے کے لیے این آر او مانگ رہی ہیں‘۔

اٴْنھوں نے کہا کہ گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے جلسے سے پہلے اس ’اتحاد میں شامل جماعتوں کے نظریات مختلف تھے لیکن سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی سوچ اس نکتے پر ہی مرکوز رہی کہ غیر جمہوری طاقتوں کے ملکی سیاست میں کردار کو ختم کیا جائے‘۔خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ 8 اگست 2008 کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا جبکہ ٹھیک دس سال کے بعد عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔اٴْنھوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران ریاستی ادارے آزادانہ طریقے سے کام کر رہے تھے لیکن اب ان ’اداروں میں بھی ایک گھٹن کا سا ماحول ہے‘۔