موجودہ مینجمنٹ کے ساتھ نہیں کھیل سکتا، محمد عامر کااحتجاجاً ریٹائر منٹ کا اعلان

ٹیم مینجمنٹ مجھے ذہنی اذیت کا نشانہ بنا رہی ہے ، موجود صورتحال میں ذہنی دباؤ برداشت نہیں کر سکتا، بیان محمد عامر کا کھیل سے ریٹائرمنٹ ان کا ذاتی فیصلہ ،ریٹائرمنٹ کی خبریں میڈیا پر ہی سن رہے ہیں ،پی سی بی سے کوئی رابطہ نہیں کیاگیا ‘ترجمان پی سی بی

جمعرات 17 دسمبر 2020 15:01

موجودہ مینجمنٹ کے ساتھ نہیں کھیل سکتا، محمد عامر کااحتجاجاً ریٹائر ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 دسمبر2020ء) قومی ٹیم کے فاسٹ باؤلر محمد عامر نے احتجاجاً انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ موجودہ مینجمنٹ کیساتھ کرکٹ نہیں کھیل سکتے۔بورڈ اور مینجمنٹ کے رویے سے دلبرداشتہ محمد عامر نے احتجاجاً ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) کی موجودہ مینجمنٹ کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیل سکتا۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ موجودہ ٹیم مینجمنٹ مجھے ذہنی اذیت کا نشانہ بنا رہی ہے اور میں موجود صورتحال میں ذہنی دباؤ برداشت نہیں کر سکتا۔انہوںنے کہاکہ پرفارمنس کے باوجود مجھ پر طنز کیا جاتا ہے اور موجودہ کوچز دبے لفظوں میں کہتے ہیں عامر نے دھوکا دیا۔عامر نے الزام عائد کیا گیا انہیں منصوبہ کے تحت سائیڈ لائن کیا گیا اور ان کے بارے میں تاثر قائم کیا گیا کہ وہ ملک کے لیے نہیں کھیلنا چاہتے۔

(جاری ہے)

محمد عامر نے کہا کہ سری لنکن پریمیئرلیگ میں شرکت کے بعد ابھی کراچی پہنچا ہوں، (آج ) جمعہ کو لاہور میںتفصیلات شیئر کروں گا۔ ابھی انٹرنیشنل کرکٹ مزید نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔محمد عامر کا کہنا ہے کہ کرکٹ چھوڑنا تو نہیں چاہتا تھا مگر جس طرح کا ماحول بن چکا، اس مینجمنٹ کے تحت انٹرنیشنل کرکٹ جاری رکھنا ممکن نہیں، دورہ نیوزی لینڈ کے لیے 35 کھلاڑیوں میں بھی شامل نہ کیے جانے پر مستقبل کا اندازہ ہوگیا، 2010 سے 2015 تک کرکٹ سے دوری کے عرصہ میں بہت سی ذہنی اذیت برداشت کی، اب مزید ہمت نہیں ہے، 5 سال پابندی کی سزا کاٹ کر آیا تھا، اس کے باوجود بار بار کہا جاتا ہے کہ پی سی بی نے مجھ پر بڑی سرمایہ کاری کی۔

محمد عامرنے کہا کہ میرے کم بیک میں سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی اورسابق کپتان شاہد آفریدی کا کردارہے، باقی ٹیم کا کہنا تھا کہ ہمیں محمد عامرکے ساتھ نہیں کھیلنا، ٹیسٹ کرکٹ کے حوالے سے میں نے ذاتی فیصلہ کیا، اس کو بھی غلط انداز میں موضوع بحث بنایا گیا، ملک کے لیے ہرکوئی کھیلنا چاہتا ہے، بی پی ایل سے آغازکیا تھا، چاہتا تو اس وقت بھی صرف لیگز کھیلتا رہتا، اس وقت بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلی، ہر مہینے زچ کیا جاتا رہا۔

جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ محمد عامر کا کھیل سے ریٹائرمنٹ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔پی سی بی کے ترجمان کے مطابق فاسٹ بولر محمد عامر کے مزید کرکٹ نہ کھیلنے کی خبریں میڈیا پر ہی سن رہے ہیں اس حوالے سے خود محمد عامر نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ترجمان پی سی بی نے کہا کہ فاسٹ بولر ویسے بھی اب پی سی بی کے ساتھ کنٹریکٹ میں نہیں اور اس ناطے سے وہ ہم سے بات کرنے کے بھی ہابند نہیں رہے، وہ اپنے فیصلے کرنے میں مکمل آزاد ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال محمد عامر نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریتائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔وہاب ریاض نے بھی کھیل کے طویل ترین فارمیٹ سے کنارہ کشی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے دونوں کرکٹرز شدید تنقید کی زد میں تھے۔قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق نے بھی عامر اور وہاب دونوں کی ریٹائرمنٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عامر اور واہب کی ریٹائرمنٹ سے مشکل دوروں میں پاکستان کو تجربہ کار باؤلرز کی کمی محسوس ہو گی۔

گزشتہ دنوں دورہ نیوزی لینڈ کے لیے قومی ٹیم کے اسکواڈ کا اعلان کیا گیا تو وہاب ریاض تو اس ٹیم میں شامل تھے لیکن محمد عامر جگہ بنانے میں ناکام رہے اس معاملے پر جب محمد عامر سے پوچھا گیا تھا تو انہوں نے طنزاً جواب دیا تھا کہ مصباح صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔گزشتہ دنوں یہ معاملہ اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب قومی ٹیم کے باؤلنگ کوچ وقار یونس نے اپنے ایک بیان میں محمد عامر کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اس کی وجہ ورک لوڈ نہیں تھی۔

وقار یونس نے کہا تھا کہ میں نہیں سمجتا کہ عامر نے ورک لوڈ کی وجہ سے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لی، میں نے انہیں حال ہی میں فرنچائز کرکٹ میں حصہ لیتے ہوئے دیکھا اور وہ محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں لہٰذا ریڈ بال کرکٹ نہ کھیلنا ان کا اپنا فیصلہ ہے۔اس حوالے سے جب ایک مقامی صحافی نے ٹوئٹر سے ان سے یہی سوال کیا تو عامر کچھ یوں گویا ہوئے تھے کہ پھر یہ سرکار وقار یونس صاحب ہی بتا سکتے ہیں، اللہ ہدایت دے جو ایسی سوچ رکھتے ہیں،2010 کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں سزا یافتہ محمد عامر کو 36 ٹیسٹ، 61 ون ڈے اور 50 ٹی20 میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔

محمد عامر کے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز 2009 میں اسی انگلش سرزمین پر ٹی20 میچ سے ہوا تھا جس میں 2010 میں انہیں اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔محمد عامر نے جولائی 2009 میں سری لنکا کے خلاف میچ سے اپنے ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز کیا تھا، انہوں نے 36 ٹیسٹ میچز میں 30.47 اوسط سے 119 وکٹیں حاصل کیں۔کیریئر کی ابتدا میں ہی کم عمر میں رفتار، سوئنگ اور سیم کے ساتھ عمدہ باؤلنگ کرنے پر محمد عامر کا مستقبل تابناک نظر آتا تھا لیکن پھر 2010 میں لارڈز ٹیسٹ نے ناصرف اس نوجوان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا بلکہ پاکستان کو بھی ایک بہترین باؤلر کی خدمات سے محروم کردیا۔

24جولائی 2010 کو لارڈز میں شروع ہونے والکے میچ کے ابتدائی روز محمد عامر نیچھ انگلش بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھا کر ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی 50 وکٹیں مکمل کر لیں لیکن پھر یہی میچ اس کے لیے ایک ساہ داغ بن گیا۔میچ کے دوران ایک برطانوی اخبار دی نیوز آف دی ورلڈ نے بک میکر مظہر مجید کی پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر اسپاٹ فکسنگ کرنے کی ویڈیوز جاری کر دیں۔

ایک ویڈیو میں مظہر مجید نے پیشگوئی کی کہ کپتان سلمان بٹ کی زیرِ نگرانی محمد عامر اور محمد آصف کس اوور کی کون سی گیند پر نو بال کروائیں گے۔تینوں کھلاڑیوں پر الزام تھا کہ انھوں نے لارڈز ٹیسٹ کے دوران سٹے بازوں سے بھاری رقوم وصول کرکے مخصوص اوقات میں جان بوجھ کر نو بالیں کرائیں۔تینوں پر یہ جرم ثابت ہوا، عدالت نے جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ عامر پر پانچ سال، آصف پر سات سال اور کپتان سلمان بٹ پر دس سال کی پابندی لگادی گئی جہاں بٹ کی پانچ اور آصف کی سزا میں دو سال کی تخفیف کردی گئی۔

محمد عامر کی 2016 میں بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی ہوئی لیکن یہ ایک بات عیاں تھی کہ ان کی باؤلنگ میں اب پہلی جیسی کاٹ نہیں رہی تھی۔2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں انہوں نے ایک یادگار اسپیل کراتے ہوئے بھارتی بلے بازوں روہت شرما، ویرات کوہلی اور شیکھر دھاون کو آؤٹ کر کے پاکستان کو چمپئن بنوانے میں مرکزی کردار ادا کیا لیکن وہ انہں کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔بالآخر 2019 ورلڈ کپ کے بعد انہوں نے ورک لوڈ کے سبب ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا تاہم ان کا کہنا تھا وہ محدود اوورز میں پاکستان کی نمائندگی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔