شام کے مغربی صوبے پر اسرائیلی فضائی حملہ

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 25 دسمبر 2020 13:40

شام کے مغربی صوبے پر اسرائیلی فضائی حملہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 دسمبر 2020ء) جنگ زدہ ملک شام، اسرائیل پر فضائی حملوں کا الزام لگاتا رہا ہے اور ماضی میں اس کی تصدیق بھی ہوچکی ہے۔ جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے یہ فضائی حملے حزب اللہ سے خود کو بچانے کے لیے ضروری اقدام کے طور پر کیے۔

شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی SANA نے شامی وزارت دفاع کے ایک بیان کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل نے لبنان کے شہر طرابلس کی جانب سے حما کے شہر مصیاف پر'جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے راکٹوں سے حملے کیے۔

‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شامی فضائیہ نے دشمن کے میزائیلوں کا مقابلہ کیا اور ان میں سے بیشتر کو ناکارہ بنا دیا گیا۔

شام کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والی برطانیہ کی آبرزرویٹری برائے انسانی حقوق نے بھی مصیاف میں فضائی حملوں کی اطلاع دی ہے اور کہا ہے کہ غالباً اسرائیل ان حملوں کا ذمہ دار ہے۔

(جاری ہے)

فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ میزائیل حملوں میں کسے نشانہ بنایا گیا تھا اور آیا کوئی زخمی یا ہلاک ہوا ہے یا نہیں۔

اسرائیل نے بھی فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

شامی ٹی وی پر نشر کردہ ایک خبرمیں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حملے کو ناکام کرنے کے لیے فضائی دفاع نے بھرپور جوابی کارروائی کی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندے کے مطابق حملے سے قبل جنگی طیاروں کو لبنان کے اوپر پرواز کرتے دیکھا گیا تھا۔

لبنان کے راستے شام پر حملہ

اسرائیل لبنان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لبنانی علاقے سے شام پر متعدد بار فضائی حملے کرچکا ہے۔

اسرائیل نے شام پر درجنوں فضائی حملوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا بنیادی مقصد مشتبہ ایرانی ہتھیاروں کے ذخائر کو تباہ کرنا ہے۔

اسرائیل نے کہا تھا کہ اسے حزب اللہ کی سرگرمیوں پر تشویش ہے جو اپنی میزائیل صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے میزائیل تیار کرنے کے کارخانے لگانے کی کوشش کررہا ہے۔ بعض تجزیہ کار اسرائیل کے فضائی حملوں کو، شامی صدر بشار الاسد کے حلیف،ایران کی اس خطے میں اپنے فوجی اثر و رسوخ بڑھانے سے روکنے کی کوشش کے طورپر دیکھتے ہیں۔

شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے رواں سال کے دوران اب تک شام میں 30 سے زائد فضائی حملے کیے ہیں۔

ج ا/ ک م (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)