نیب سے مطمئن نہیں، احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کیخلاف ایکشن لیں گے، سپریم کورٹ

ہم نیب سے مطمئن نہیں ہیں، نیب کو کام سے کون روکتا ہے ہمیں بتائیں ،نیب ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائے، چھوٹے افسران کو پکڑ لیا، کیا اصل فائدہ لینے والوں کو پکڑتے ہیں ملک میں بکری چور 5 سال کیلئے جیل جاتا ہے، بڑی کرپشن والے آزاد گھوم رہے ہیں، جسٹس عمر عطاء بندیال کے ریمارکس

بدھ 6 جنوری 2021 17:15

نیب سے مطمئن نہیں، احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کیخلاف ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 جنوری2021ء) سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال نے جعلی اکاؤٹنس سے متلعق کیس کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ہم نیب سے مطمئن نہیں ہیں، نیب کو کام سے کون روکتا ہے ہمیں بتائیں تاکہ اسے پکڑیں کیونکہ احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کیخلاف ایکشن لیں گے۔

بدھ کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل بلوچ کی درخواست ضمانت پر سماعت کی، اس دوران پراسیکیوٹر جنرل نیب سمیت دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے دوران پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ ڈاکٹر ڈنشاہ کی درخواست ضمانت کی مخالفت نہیں کریں گے، تاہم سرکاری افسران کی ضمانت کی مخالفت کریں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ (ملک ریاض کے داماد) زین ملک کو پلی بارگین کی درخواست پر 15 فروری تک کا وقت دیا گیا ہے، تب تک اگر زین ملک نے این او سی نہ دیا تو ان کے خلاف تحقیقات ہوں گی۔اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس مظاہر علی اکبر نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائے، چھوٹے افسران کو پکڑ لیا، کیا اصل فائدہ لینے والوں کو پکڑتے ہیں انہوں نے کہا کہ اس اسکینڈل کے اصل ملزم پر نیب نے ہاتھ نہیں ڈالا، نیب کے پاس اپنی مرضی سے کام کرنے کا اختیار نہیں، ملک میں بکری چور 5 سال کیلئے جیل جاتا ہے، بڑی کرپشن والے آزاد گھوم رہے ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ ملک بچانا ہے یا نہیں ، نیب نے اپنی مرضی کرنی ہے تو سیکش 9 میں ترمیم کرے پھر جو مرضی کرے، جس پر پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ نیب اپنی مرضی نہیں کرتا، ملزم کو پکڑ کر 24 گھنٹوں میں احتساب عدالت میں پیش کردیا جاتا ہے اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ اس ملک کے ساتھ نیب کیا کر رہا ہے، کرتا نیب ہے بھگتتی سپریم کورٹ ہے، ملزم کو چھوڑنے کا الزام سپریم کورٹ پر آتا ہے۔

اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ نیب بڑے آدمی پر ہاتھ نہیں ڈالتا، سپریم کورٹ کا نیب کے بارے میں یہ تاثر ہے تو عام آدمی کا کیا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ نیب کو پتا ہے زین ملک کے لیے این او سی لانا مشکل ہے، زین ملک اگر این او سی لے آئے تو پھر آپ این او سی جاری کرنے والوں کو مقدمے میں گھسیٹیں گے، جس پر پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ این او سی آیا تو جاری کرنے والے کو مقدمے میں شامل کریں گے جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ تو پھر نیب نے مرکزی ملزم کو 15 فروری تک مہلت کیوں دی۔

دوران سماعت دیگر اراکین بینچ کے ریمارکس کے ساتھ ہی سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی نیب سے متعلق کہا کہ نیب کی کارکردگی رپورٹ پڑی ہے، ادارے نے اربوں روپے اکھٹے کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نیب پر سرکار کا ہی نہیں بلکہ ہر طرف سے دباؤ ہوتا لیکن قانون کا اطلاق سب پر برابر ہونا چاہیے اور احتساب بھی قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کیخلاف ایکشن لیں گے، ہم نیب سے مطمئن نہیں ہیں، نیب کو کام سے کون روکتا ہے ہمیں بتائیں تاکہ اسے پکڑیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم نیب کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی نے مجھ پر مہربانی کی تو میں اس پر مہربانی کروں، نیب کو بہادری اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔عدالتی ریمارکس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمارے اوپر کوئی دباؤ نہیں جبکہ نہ ہی کوئی کام سے روکتا ہے۔اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سینیٹ سمیت مختلف فورم پر نیب پر بات ہورہی ہے، نیب نے سرکاری افسروں کو دبایا، اصل بینفشریز کو پوچھا نہیں۔

انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلا ریفرنس، دوسرا ریفرنس یہ کیا مذاق بنایا ہوا ہے، معلوم ہے کہ نیب مقدمات عام فوجداری کیسز نہیں ہوتے۔انہوںنے کہاکہ نیب سرکاری افسران کو سب سے پہلے گرفتار کرلیتا ہے لیکن جس کے خلاف شواہد ہوں اسے گرفتار نہیں کرتا۔بعد ازاں عدالت نے جعلی اکاؤنٹ کیس میں ڈاکٹر ڈنشا کی ضمانت منظور کرلی تاہم ساتھ ہی کہ بھی کہا کہ ڈاکٹر ڈنشا ملک سے باہر نہیں جاسکتے اور وہ نیب کے ساتھ تفتیش میں تعاون کریں گے۔