ملازمین ریٹائرمنٹ عمر بڑھانے کے خلاف ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار

جب قانون پر گورنر کے دستخط ہو گئے تو معاملہ ختم ہو گیا،سپریم کورٹ نے معاملہ دوبارہ فیصلہ کے لیے پشاور ہائیکورٹ کو واپس بھجوا دیا

جمعرات 7 جنوری 2021 21:56

اسلا م آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 جنوری2021ء) سپریم کورٹ میں کے پی ملازمین ریٹائرمنٹ عمر بڑھانے کے خلاف ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔پشاور ہائیکورٹ نے ملازمین کی ریٹائرمنٹ عمر بڑھانے سے متعلق قانون کالعدم قرار دیا تھا، سپریم کورٹ نے معاملہ دوبارہ فیصلہ کے لیے پشاور ہائیکورٹ کو واپس بھجوا دیا۔

چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ قانون آئین کے تحت بنتا ہے رولز آف بزنس سے نہیں۔صرف وضاحتوں سے قانون چینلج نہیں ہوتے۔چند سول سرونٹس کے تحفظات پر قانون تو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ قانون کے مطابق کیس کا فیصلہ کرے۔سرکاری ملازمین کے وکیل کا کہنا ہے کہ سول سرونٹ ایکٹ میں ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سال کر دی گئی۔

(جاری ہے)

25 سال کی سروس پر رٹائرمنٹ کا قانون ختم کر دیا گیا۔

اسمبلی میں کسی کو سنے بغیر اور بحث کیے بغیر بل پاس کیا گیا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ اگر کسی کو اسمبلی کی کارروائی پر اعتراض ہے تو اسمبلی میں جاکر شکایت کرے۔جب روٹی پک چکی تو یہ پوچھنا بیکار ہے کہ آٹا کہاں سے آیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب قانون پر گورنر کے دستخط ہو گئے تو معاملہ ختم ہو گیا۔قانون سازی میں کسی کا موقف سننئے کا تصور نہیں ہے۔

واضح رہے کہ خیبرپختونخواہ حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین سال کا اضافہ کیا تھا۔ خیبرپختونخوا حکومت نے سالانہ 24 ارب روپے کی بچت کے لیے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر اضافہ منظور کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے بڑھا کر 63 برس کردی تھی۔ آئین کی دفعہ 240 (ب) کے تحت صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس بارے میں صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کی جاسکے۔ ابتدا میں سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 50 سال مقرر کی گئی تھی جس کے بعد اسے بڑھا کر 60 برس کردیا گیا تھا۔