بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ایئر مکس پلانٹ کے ذریعے گیس سپلائی کی جائے ،صارفین سے گیس پائپ لائن والے نرخ وصول کئے جائیں ،سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کی سفارش

گیس کے نرخ مقر ر کرنے بارے طریقہ کار اوگرا طے کرتا ہے، حکومت چالیس دنوں میں اس حوالے سے پالیسی بناتی ہے، گرمیوں اور سردیوں کیلئے گیس کے نرخ کی پالیسیاں مختلف ہیں، گرمیوں میں زیادہ چارج کیا جائیگا، اوگرا جیسے ہی سمری ای سی سی میں بھیجے گا اُس کا جائزہ لیا جائیگا، کمیٹی کو آگاہی

جمعہ 8 جنوری 2021 23:06

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 جنوری2021ء) سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات نے سفارش کی ہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ایئر مکس پلانٹ کے ذریعے گیس سپلائی کی جائے اور صارفین سے گیس پائپ لائن والے نرخ وصول کئے جائیں جبکہ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ گیس کے نرخ مقر ر کرنے بارے طریقہ کار اوگرا طے کرتا ہے، حکومت چالیس دنوں میں اس حوالے سے پالیسی بناتی ہے، گرمیوں اور سردیوں کیلئے گیس کے نرخ کی پالیسیاں مختلف ہیں، گرمیوں میں زیادہ چارج کیا جائیگا، اوگرا جیسے ہی سمری ای سی سی میں بھیجے گا اُس کا جائزہ لیا جائیگاجمعہ کو سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یا فتہ علاقہ جات کے مسائل کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں20 اگست 2020 اور02 نومبر 2020 کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد صوبہ بلوچستان کے گھریلو گیس صارفین کے لئے سردیوں میں قدرتی گیس کے ریٹ کے لئے ایوان بالا سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد نمبر 353 پر عملدر آمد ، صوبہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کے لئے ایئر مکس پلانٹ لگانے اور ان کے لئے تجویز شدہ نرخ ، صوبہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں قدرتی گیس کی سپلائی اور مناسب پریشر، آغاز حقوق بلوچستان کے تحت او جی ڈی سی ایل میں 15 انجینئرز کو مستقل کرنے کے علاوہ مختلف تیل اورگیس کمپنیوں بشمول مول ، نیسپا، سینڈا، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ایس این جی پی ایل، ایس ایس جی سی ایل، ایم پی سی ایل اور دیگر کمپنیوں میں بھرتی کئے گئے ملازمین کی تفصیلات کے معاملات کا جائزہ لیا گیا۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز ، فدا محمد ، انور لال دین، سردار محمد شفیق ترین کے علاوہ اسپیشل سیکرٹری پیٹرولیم ،ایم ڈی سوئی نادرن ، ایم ڈی سوئی سدرن اور دیگر ا متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑنے کہا کہ صوبہ بلوچستان کے کچھ اضلاع میں سردیوں کے موسم میں درجہ حرارت منفی 17تک پہنچ جاتا ہے ہمارے صوبے سے نکلنے والی گیس پورے ملک میں جاتی ہے جو کھانے پکانے کیلئے استعمال ہوتی ہے مگر ہمارے صوبے میں گیس زندگی بچانے کیلئے استعمال کی جاتی ہے جو سخت سردی میں بھی نہیںملتی ۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ گیس کے نرخ مقر ر کرنے کے حوالے سے ایک طریقہ کار ہے اوگرا طے کرتا ہے اور پھر حکومت چالیس دنوں میں اُس حوالے سے پالیسی بناتی ہے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گرمیوں اور سردیوں کیلئے گیس کے نرخ کی پالیسیاں مختلف ہونگی ۔ گرمیوں میں زیادہ چارج کیا جائے گا ۔ اوگرا جیسے ہی سمری ای سی سی میں بھیجے گا اُس کا جائزہ لیا جائے گا۔

اوگرا حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ رواں ماہ ہی میں سمری بھیج دی جائے گی۔ چیئرمین کمیٹی محمد عثمان خان کاکڑ کے سوال کے جواب میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ گیس کے سلیب 01 سے 50یونٹ تک 121روپے 51سے 100یونٹ تک 300روپے ، 101سے 200یونٹ تک 557روپے اور 400سے اوپر گیس یونٹ استعمال کرنے کی سلیب 1460روپے ہے 95فیصد سارفین پہلی تین سلیب میں آ جاتے ہیں ۔سوئی ناردرن کے 70 لاکھ صارفین ہیں اور 70 فیصد کی ایک ہزار روپے سیکم گیس استعمال کرتے ہیں۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بلوچستان میں سردی کیوجہ سے 16 گھنٹے گیس چلائی جاتی ہے کئی علاقوں میں اکتوبر سے درجہ حرارت منفی میں چلا جاتا ہے۔بلوچستان کوئٹہ کے علاوہ پورا کم ترقی یافتہ علاقوں میں آتا ہے،ارب پتیوں کو سبسڈی دی جاتی ہے لیکن غریبوں کو سبسڈی نہیں دی جاتی۔پاکستان کے سرد ترین علاقوں کیلئے دو سلیب ہونے چاہئے 01سے 500یونٹ اور دوسری 501سے 1000یونٹ تک سلیب ہونی چاہئے اور ان علاقوں میں پریشر کے مسئلوں کو بھی حل ہونا چاہئے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ صوبہ پنجاب سے گیس 92ایم ایم سی ایف پیدا ہوتی ہے جبکہ 950ایم ایم سی ایف خرچ ہوتی ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کی پیداوار366ایم ایم سی ایف اور استعمال 317، سندھ کی 2225ایم ایم سی ایف پیداوار اور استعمال 1562ایم ایم سی ایف ہے جبکہ بلوچستان میں 651ایم ایم سی ایف پیداوار اور 405ایم ایم سی ایف جون 2020میں ریکارڈ کی گئی ہے ۔ کمیٹی اجلاس میں صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 15انجینئرز کو مستقل کرنے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ بھرتی کیلئے اشتہار دے دیا ہے پانچ درخواستیں وصول ہو چکی ہیں دو ماہ میں بھرتی کا عمل مکمل ہو جائے گا اور ایسا طریقہ کار رکھا گیا ہے جس میں ان کام کرنے والے انجینئر کو ترجیح دی جائے گی ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے یکم فروری 2021تک تمام 15انجینئرز کی بھرتی مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔کمیٹی اجلاس میں بلوچستان کے علاقوں کیلئے ایئر مکس پلانٹ لگانے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیاگیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایئرمکس پلانٹ کی تنصیب کے حوالے سے معاملہ ای سی سی میں اٹھایا گیا تھا ۔ مشترکہ مفادات کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ ای سی سی کی جانب سے پہلے سے منظور شدہ تمام ایل پی جی ایئرمکس پلانٹس جن پر کام شروع نہیں ہوا ما سوائے آوران اور بیلہ کے علاوہ باقی تمام ایئرمکس پلانٹ کی تنصیب کو روکا جائے ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم نے گیس پائپ لائن کا مطالبہ کیا تھا مگر ایئر مکس کا وعدہ کیا گیا مگر اب اُسے مہنگا قرار دے کر انکار کیا جا رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پہلے بھی کمیٹی کو گمراہ کیا گیا ہے ۔ موسیٰ خیل میں گھروں کی تعداد 1350بتائی گئی جبکہ 2098ہیں۔ لورالائی میں 3017گھروں کی تعداد بتائی گئی جبکہ 7433گھر ہیں ۔ مسلم باغ میں 2510گھر بتائے گئے جبکہ مردم شماری کے ڈیٹ کے مطابق اصل گھر 5571ہیں اسی طرح فی کس اخراجات میں بھی لاکھوں کا فرق ہے۔ وزارت پیٹرولیم غلط معلومات لینے والوں کا نوٹس لیں۔

انہوں نے کہا کہ فنکشنل کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ ان علاقوں کو ایئر مکس پلانٹ کے ذریعے ہی گیس سپلائی کی جائے اور صارفین سے گیس پائپ لائن والے نرخ وصول کئے جائیں۔ سوئی سدرن حکام نے دوبارہ ان علاقوں کا سروے کرانے کی یقین دہانی کرائی ۔ کمیٹی کو صوبہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں گیس سپلائی کے حوالے سے بتایا گیا کہ گیس پریشر کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ایک ارب کے منصوبے منظور ہو چکے ہیں 16انچ اور 12انچ کے پائپ لگائے جائیں گے ۔

اپریل 2021میں کام شروع ہو گا اور اکتوبر ، نومبر تک کام مکمل ہو جائے گا۔ فنکشنل کمیٹی نے منصوبہ جات کی تفصیل طلب کر لی۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی ہے کہ بلوچستان کے سرد ترین علاقوں میں گیس پریشر کو جلد سے جلد حل کیا جائے گا۔ کمیٹی اجلاس میں مختلف تیل اورگیس کمپنیوں بشمول مول ، نیسپا، سینڈا، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ایس این جی پی ایل، ایس ایس جی سی ایل، ایم پی سی ایل اور دیگر کمپنیوں میں بھرتی کئے گئے ملازمین کی تفصیلات کے معاملے کا آئندہ اجلاس میں جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔