Live Updates

متعلقہ وزیر کو مستعفی ہونا چاہیے ،سینٹ میں اپوزیشن اراکین کا بجلی کے ملک گیر بلیک آئوٹ کے اصل حقائق سامنے لانے کا مطالبہ

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کرکے پھر بھی قانون سازی نہیں ہورہی ہے ،کے پی کے میں عوام کو صحت کی سہولیات میسر نہیں،جزائر معاملے سندھ اور بلوچستان کی عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور نہ کیا جائے،وفاق صوبوں کے وسائل پر بری نظر نہیں رکھ سکتا،اس خام خیالی سے گریز کرنا ہوگا اور اسے ذہن سے نکالنا ہوگا ، شیری رحمن ، رضا ربانی ، و دیگر کا اظہار خیال نوازشریف اتنے اچھے تھے تو آج وہ اور ان کے بچے اشتہاری کیوں ہیں یہ ان کیمرہ این آر او مانگتے ہیں،چالیس سے باریاں بدل بدل لوگوں کو مسائل میں دھکیلنے والے پی پی پی اور ن لیگ ہے ،براڈ شیٹ کمپنی کو اثاثے چھپانے پر رشوت کی پیشکش کی گی گئی ، انہوں نے ٹھکرا دی، مراد سعید براڈ شیٹ ،سات سو کروڑ پاکستانی روپے بنتے ہیں جو مشرف کی حماقت اور پی ٹی آئی کی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کمپنی کو ادا کرنے پڑے،پرویز رشید بی بی کی حکومت اٹھارہ ماہ میں چلی گئی تھی اس کے ڈانڈے رائیونڈ سے تو نہیں ملتے ہیں ، علی محمد خان

منگل 12 جنوری 2021 22:09

متعلقہ وزیر کو مستعفی ہونا چاہیے ،سینٹ میں اپوزیشن اراکین کا بجلی کے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جنوری2021ء) سینٹ میں اپوزیشن اراکین نے بجلی کے ملک گیر بلیک آئوٹ کے اصل حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ معاملہ پر متعلقہ وزیر کو مستعفی ہونا چاہیے ،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کرکے پھر بھی قانون سازی نہیں ہورہی ہے ،کے پی کے میں عوام کو صحت کی سہولیات میسر نہیں،جزائر معاملے سندھ اور بلوچستان کی عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور نہ کیا جائے،وفاق صوبوں کے وسائل پر بری نظر نہیں رکھ سکتا،اس خام خیالی سے گریز کرنا ہوگا اور اسے ذہن سے نکالنا ہوگا جبکہ وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا ہے کہ نوازشریف اتنے اچھے تھے تو آج وہ اور ان کے بچے اشتہاری کیوں ہیں یہ ان کیمرہ این آر او مانگتے ہیں،چالیس سے باریاں بدل بدل لوگوں کو مسائل میں دھکیلنے والے پی پی پی اور ن لیگ ہے ،براڈ شیٹ کمپنی کو اثاثے چھپانے پر رشوت کی پیشکش کی گی گئی ، انہوں نے ٹھکرا دی۔

(جاری ہے)

منگل کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت اجلاس میں حکومت کی جانب سے پارلیمان اورصوبائی حقوق کو سلب کرنے کے بارے اپوزیشن کی تحریک پر بحث کی گئی ۔سینیٹر نصرت شاہین نے کہاکہ بجلی، گیس بحران پچھلی حکومتوں کی بدولت ہے،گزشتہ حکومتوں نے ملک کو بہت بحران دیئے۔سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہاکہ ہمارے وزیراعظم یوٹرن کے ماسٹر ہیں،موجودہ حکومت نے آرڈیننس کی فیکٹری کھول رکھی ہے،ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے،وزیراعظم خود تسلیم کرتے ہیں ہماری ٹیم تجربہ کار نہیں۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ پی ڈی ایم کہتی ہے خواجہ آصف اور دیگر کو رہا کرو ،ان کے مطالبات نہ ماننے والے ہیں ،پی ڈی ایم کہتی ہے استعفے دیں گے جب کہا جائے کہ استعفے دیں تو ٹھس ہوجاتی ہے،پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔سینیٹر شیری رحمان نے کہاکہ پی ڈی ایم کے جلسے میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا ،عوام نے حکومت کو مسترد کردیا ہے ،حکمرانی آئین کے زریعے ہوتی ہے ،آرڈیننس جاری کرکے پارلیمان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے ۔

انہوںنے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کرکے پھر بھی قانون سازی نہیں ہورہی ،کے پی کے میں عوام کو صحت کی سہولیات میسر نہیں ہے ،حکومت نے سندھ کے لیے کچھ نہیں کیا بی آر ٹی کی بسیں چلنے کی بجائے جل رہی ہیں ،کے پی کے بھی آرڈیننس کے زریعے چل رہا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ تباہی سرکار نے ہر طرح کی تاریخ رقم کی ہے ،ملک میں حکمرانی معلوم نہیں کہاں سے چل رہی ہے ،حکومت سے کوئی بھی شعبہ نہیں چل رہا ،ملک میں کورونی کیپیٹل ازم چل رہا ہے ،انڈیا نے ہمیشہ پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے ،بین الاقوامی سطح پر سفارتی ذرائع بالکل ناکام ہو کر رہ گئی ہے ۔

انہوںنے کہاکہ نیا پاکستان سے پرانا پاکستان بہتر تھا لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا مناسب ریٹ پر مل رہی تھی ،ملک کا سب سے بڑا مسئلہ غذائی قلت اور بے روزگاری ہے ،پاکستان کے تمام ادارے تباہ کردیے ہیں فرد واحد ملک نہیں چلا رہا ،این آر او ہم نہیں مانگ رہے حکومت این آراو مانگ رہی ہے ،ہم بیک ڈور سے اقتدار میں کبھی نہیں آئے ہم نے ہمیشہ کام کیا ہے۔

سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ گزشتہ ورز مالاکنڈ کے لوگوں نے حکومت کے خلاف ریفرینڈم دیا، حکومت نے پارلیمان کو تالا لگایا ہے، اجلاس ہم نے ریکوزیشن پر بلایا ہے، ہم یہاں صرف تنخواہ لینے نہیں آتے، اس حکومت نے پارلیمان کے فرائض اور حقوق پر تالا لگایا ہے۔ انہوںنے کہاکہ دھونس دھمکی کے بعد ان سے ملک نہی چلا، انہوں نے 40 سے زیادہ آرڈیننس پاس کئے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ خیبر پختونخواہ کے برے حال ہیں، تحریک انصاف 8 سال سے حکومت میں ہے، خیبر پختونخواہ لے لوگ علاج معالج کے لئے سندھ جا رہے۔ انہوںنے کہاکہ حکومت اب سندھ کے ہسپتال ہڑپ کرنا چاہتی، بی آر ٹی بسیں چل نہیں، جل رہی ہیں، ماحولیات کا شعبہ مفلوج ہو چکا ہے، تباہی سرکار نے ہر قسم کی تاریخ رقم کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ تو کورانا وائرس ویکسین آرڈر نہی کر سکے، 22 کروڑ لوگوں کے لئے 11 لاکھ ویکسین آرڈر کئے گئے ہیں، وزیراعظم سینیٹ میں کتنی دفعہ آئے ہیں، ایک دفعہ آپ سے ملک نہیں چل سکتا، آپ سے عالمی فورم پر پاکستان کی نمائندگی نہیں ہوتی۔

انہوںنے کہاکہ شرم آتی ہے وزیر اعظم نے ہزارہ کمیونٹی سے بارگین کی، روز تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں،روزولیٹ سے لیکر پی ڈی سی، ملازمین کو بیروزگار کر دیا گیا، این آر او ہم نہیں آپ مانگ رہے، سندھ کے جزائر سندھ پر کا حق ہے، ہم حکومت کے تعمیراتی مافیہ کو سندھ کے جزائر پر ڈاکا ڈالنے نہیں دینگے۔سینیٹر کرشنا کماری نے کہاکہ وفاقی حکومت نے جزائر سے متعلق سندھ حکومت کو خط لکھا تھا، خط میں جزائر پر ترقیاتی کام کا کہا گیا، سندھ حکومت انکے ارادے پہلے ہی جانتی تھی، سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کے خط پر تین شرائط رکھی تھیں، سندھ حکومت نے واضح کیا تھا کہ ترقیاتی کام سندھ حکومت کے زیر نگرانی ہوگا، جو خط لکھا گیا تھا اس میں صرف ترقیاتی کام کا ذکر تھا قبضے میں لینے کا ذکر نہیں تھا،جزائر سندھ کی ملکیت ہیں، سندھ اور بلوچستان کی عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور نہ کیا جائے۔

سینیٹ میں سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ اپنے بچپن میں پی پی پی کو سندھ میں حکومت کرتے دیکھا ،آج بھی پی پی پی کو سندھ میں حکومت کرتے دیکھ رہے ہیں ،حکومت پر تنقید والے بتائیں سندھ کی ترقی کے لیے کیا ،حکومتی معاشی اقدامات کی پوری دنیا معترف ہے ،کورونا پر بہترین حکمت عملی پر ورلڈ اکنامک فورم پر سراہا گیا ،مو حولیات پر اقوام متحدہ کا چیلنج دس سال پہلے مکمل کیا ،پرانے پاکستان میں حکمران غیر قانونی طریقے سے پیسے بناتے تھے وہ سلسلہ ختم ہو گیا۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ حکومت عوامی مسائل پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لینا چاہتی ،ملک میں پاور بریک ڈائون سے پورا ملک تاریکی میں ڈوبا ،حکومت کو پاور بریک ڈائون کے بارے سینیٹ میں پالیسی بیان دینا چاہیے تھا ،حکومت نے پاور بحران پر انکوائری کے احکامات نہیں دئیے۔ انہوںنے کہا کہ بد قسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے پارلیمان مر چکا ہے،مسائل کو اس ایوان میں نا گفتگو کرنا چاہتی ہے نا اس ایوان کو سنجیدہ لیتی ہے،پورا ملک تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور سامنے آیا کہ پاور سیکٹر کس طرح کرپشن کر رہا ہے،بیوروکریسی کی اجارہ داری کھل کر سامنے آگئیاس معاملے پر کچھ نہیں ہوا اور نا ہی کسی بڑے افسر کے خلاف کوئی ایکشن کیا گیاچھوٹے ملازمین کو معطل کر دیا گیا،واقعے پر مٹی ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی،ایک محکمانہ انکوائری کر کے جان چھڑائی گئی،نیپرا نے انکوائری شروع کی مگر حکومت نے تکلیف نہیں کی،گدو پاور پلانٹ کو چلانے والی کمپنیاں بغیر سی ایس اوز کے سالہا سال سے کام کر رہے ہیں،این پی ڈی سی کا مینیجنگ ڈائریکٹر پچھلے تین سالوں سے تعینات نہیں ہوا،10 میں سے دس ڈسکوز کی نجکاری کی جا رہی ہے،ڈسکوز کی لیبر یونینز کا ریفرنڈم سنگل باڈی کا ہوتا ہے مگر یہ حکومت ہر ڈسکو کا الگ ریفرنڈم کرانا چاہتی ہے،بلیک آؤٹ کے معاملے کو متعلقہ کمیٹی کے سامنے بھیجے تاکہ اصل حقائق سامنے آنے چاہیے معاملے پر متعلقہ وزیر کو مستعفی ہونا چاہیے ۔

سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ فیصل جاوید نے کہا ستر سال میں پہلے حکومت ہے جس نے دیامیر اور مہمند ڈیم پر کام شروع کیا،اس کے لیے زمین آسمان سے نہیں اتری تھی، اس کی زمین کی خریداری کا کام پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہواپاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت میں یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچا،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں،انہیں دعوت دیتا ہوں کہ جب ان کے پاس وقت ہو یہ ناچیز ان کے ساتھ اسلام آباد،راولپنڈی، لاہور ملتان کویٹہ جہاں چاہیں ان کے ساتھ باذار جانے کے لیے تیار ہونگاسرکاری ٹی وی کا کیمرا ان کے ساتھ ہوگا،وہ لوگوں سے سوال کریں کہ کیا تمہاری قوت خرید 2 ہزار 13 سے 18 تک بڑھی یا کم ہوئیاس کا پوری دنیا کو دکھائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا کمپنی ہو جائے تاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنہیں صادق اور امین قرار دیا ان کے دور میں کہیا صورتحال ہے اور پتہ چلے کہ جنہیں عدالتوں نے نا اہل کر دیا ان کے زمانے میں عوام کی حالت کیا تھی ،خلق خدا سے پتہ چل جائے گا کہ ان دور میں عوام کی کہا حالت ہے،،پاکستان کا وفاق پہلے وجود میں نہیں آیا ،1947 سے پہلے پاکستان نام کی کوئی ریاست دنیا کے نقشے پر موجود نہیں تھی مگر جس خطے میں پاکستان وجود میں آیا صدیوں سے یہ لوگ یہاں رہ رہے تھے،تمام صوبے صدیوں سے آباد ہیں ہی اور ان کا اپنا جغرافیہ ہے،انہوں نے ہی اس ریاست کا نام پاکستان رکھا،جن اجزا سے ملکر پاکستان بنتا ہے ان کے وسائل پر ڈاکہ ڈالنا شروع کر دیں،سندھ اور بلوچوں کے خون پسینے سے یہاں پیداوار ہوتی ہے،پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ٹیکسوں سے یہ وفاق چلتا ہے،کیا جسے ہم پالتے ہیں وہ اپنے ہی بچوں کو کھانا شروع کر دیگا،وفاق صوبوں کے وسائل پر بری نظر نہیں رکھ سکتا،سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ایسا کرنے کی کوشش ہوئی تو اس کے خلاف عوام کی مزاحمت ہوگی،اس خام خیالی سے گریز کرنا ہوگا اور اسے ذہن سے نکالنا ہوگا ،پاکستان میں ایک عرصے سے ایک پراپیگنڈا کیا جاتا ہے،نصرت شاہین نے جو کہا ان کی تربیت کا حصہ ہے یہ،ان کی تربیت میں یہی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف ایک شخص ایماندار ہے،اگر یہ شخص اگر نا ہوتا تو پاکستان کو لوٹ کے کھا جاتے یہ لٹیرے،یہ کیا حقائق اور واقعات کبھی کسی بات کی تصدیق کرتے ہیں مشرف کے دور میں براڈ شٹ کمپنی سے معاہدہ ہوا کہ وہ لندن میں پاکستانی سیاستدانوں کے اثاثے تلاش کریگی،مگر وہ کمپنی ناکام رہی اور 2003 میں معاہدہ ختم ہوگیا،کمپنی عدالت میں چلی گئی اور عدالت نے حکم دیا نیب کمپنی کو ادائیگی کرے،حکومت پاکستان کے جو پیسے یوکے کے بنکوں میں موجود تھے وہ منجمد کرنے کا حکم دیا گیا،سات سو کروڑ پاکستانی روپے بنتے ہیں جو مشرف کی حماقت اور پی ٹی آئی کی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس کمپنی کو ادا کرنے پڑے،کیا ان پیسوں سے پاکستان کے غرباء کے حالات نہیں بلدے جا سکتے تھے،صرف پاکستان مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان کو نیچے دکھانے کے لیے کروڑوں روپے ادا کرنے پڑے،ابھی مزید انہیں جرمانے ادا کرنے کرینگے تو سرخرو کون ہوا ،کیا وہ ہوا جسے نا اہل قرار دیکر پاکستان آنے سے روکا جا رہا ہے یا جسے صادق و امین قرار دیا جا رہا ہے،مشیر احتساب خود کہتے ہیں کہ براڈ شٹ فراڈ کمپنی ہے،اربوں روپے ہم ہرجانوں کے جو ادا کر رہے ہیں اس کا کوئی حساب دیگا،اربوں روپے جو ادا کر رہے ہیں جو ہمارے ٹیکسوں کے پیسوں کا ہے،ہم غریبوں کے سات سو کروڑ روپے کا کوئی پوچھے گا کہ اس کی بدعنوانیوں کا کوئی حساب دیگا سینیٹ میں وفاقی وزیر مراد سعید نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پی پی پی نے ڈیڑھ سو سے زائد آرڈیننس جاری کیے تھے ،اپوزیشن کو آئین کو پڑھ کر جزائر پر بات کرنی چاہیے ،این او سی سندھ حکومت نے جاری کیا پورٹ قاسم سے کرایہ وصول کررہے ہیں ،چالیس سے باریاں بدل بدل لوگوں کو مسائل میں دھکیلنے والے پی پی پی اور ن لیگ ہے ،جب بھی آپ سے سوال پوچھے جاتے ہیں مختلف قومیت کی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں ،براڈ شیٹ کمپنی کے حوالے سے کیا باتیں سامنے آئی ہیں ،براڈ شیٹ کمپنی کو اثاثے چھپانے پر رشوت کی پیشکش کی گی گئی لیکن انہوں نے ٹھکرا دی۔

مراد سعیدنے کہاکہ مجھے آج بھی یاد ہے ن لیگ نے پیپلزپارٹی کی حکومت پر الزام لگایا کہ لانچوں میں پیسہ بھر کے باہر بھیجا جارہا ہے،سب نے ایان علی کا نام پہلی بار کب سنا ،ایوان صدر میں بیٹھ کر فیک اکاؤنٹ سے پیسے نکالے جاتے رہے،عمران خان حکومت میں اس لیے ایسا کچھ نہیں ہورہا کہ یہاں کچھ مک مکا نہیں،ماضی کی حکومتوں نے نیب، ایف بی آر، ایس ای سی پی کو کرپشن کے لیے استعمال کیا،ان کے وزراء نے وزارت کے ساتھ ساتھ بیرون ملک اقامے بھی لیے،اگر نوازشریف اتنے اچھے تھے تو آج وہ اشتہاری کیوں ہیں ،اگر اسحاق ڈار اتنے اچھے وزیر تھے تو آج وہ اشتہاری کیوں ہیں ،آج نوازشریف ان کے دو بیٹے اور اسحاق ڈار اشتہاری ہیں۔

وزیر مملکت علی محمد خان نے کہاکہ اپوزیشن کی بات قانونی طور پر درست نہیں ،بی بی کی حکومت اٹھارہ ماہ میں چلی گئی تھی اس کے ڈانڈے رائیونڈ سے تو نہیں ملتے ہیں ،صوبوں کے حقوق غصب کرنے کی بات کرتے ہیں ،پنجاب میں گورنر راج عمران خان نے نہیں لگایا تھا ،اس دوران میرا وزیر اعظم سپریم کورٹ کی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا ،ن لیگ کی حکومت گئی تو انہیں بھی سپریم کورٹ یاد آیا ،گناہ بے لذت ہم نے تو کچھ بار کیا ہو گا ہم پر آئین کی پامالی کا الزام لگایا جاتا ہے ،سندھ میں آپ کا ہم سے مقابلہ ہے ،ہمارے پاس سندھ اور کراچی کا مینڈیٹ ہے ،بلاول لاڑکانہ میں جلسہ رکھیں ،عمران کان بھی جلاہ کریں گے اندازہ ہو جائے گا ،ہم نے آپ سے پچیس تیس کم آرڈیننس جاری کئے۔

بعد ازاں سینٹ کااجلاس جمعہ کی صبح دس بجے تک ملتوی کر دیاگیا
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات