سہ ملکی ریل لنک بحالی پر ترکی، ایران اور پاکستان متفق

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 15 جنوری 2021 18:40

سہ ملکی ریل لنک بحالی پر ترکی، ایران اور پاکستان متفق

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 جنوری 2021ء) ان تینوں ملکوں کے درمیان ممکنہ ریل لنک میں شامل استنبول، تہران اور اسلام آباد کے مقامات شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس ریل ٹریک کے استوار ہونے سے ان ملکوں کے درمیاں تجارت میں افزائش کے ساتھ ساتھ تینوں ملکوں کے سیاحوں کی آمد و رفت بھی توقع سے بڑھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نقل و حمل کا رابطہ تینوں ملکوں میں تعلقات کو بہتر خطوط پر استوار کرنے میں بھی کلیدی کردار کا حامل ہو سکے گا۔

ڈھاکہ۔دہلی۔لاہور ریل لنک: پاکستان میں پیش رفت

ریل ٹریک کا حجم

اس ریلوے ٹریک کو مکمل کرنے پر اس کی کل لمبائی چھ ہزار پانچ سو کلومیٹر (چار ہزار تیس میل) ہو گی۔ اس طویل ٹریک میں ایک ہزار نو سو پچاس کلومیٹر کا ٹریک ترکی میں بچھایا جائے گا۔

(جاری ہے)

ایران میں اس ٹریک کی لمبائی دو ہزار چھ سو کلو میٹر ہو گی جب کہ پاکستان میں ریلوے ٹریک ایک ہزار نو سو نوے کلو میٹر پر پھیلا ہو گا۔

بظاہر اسلام آباد، استنبول اور تہران (آئی ٹی آئی پراجیکٹ) ریلوے پراجیکٹ چینی تعاون سے تعمیر کیے جانے والے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو‘ کا حصہ تو نہیں ہے لیکن انجام کار یہ اس میں شامل ہو سکتا ہے۔

بیجنگ کی آئی ٹی آئی پراجیکٹ میں شمولیت؟

اٹلانٹک کونسل کے شعبے جنوبی ایشیا سینٹر کی ایرانی تجزیہ کار فاطمہ امان کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ منصوبے پر چار سو بلین ڈالر سے زائد کی لاگت آ سکتی ہے۔

اس میں چین کو شامل کرنے سے اس بڑے منصوبے کو حقیقت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ امان کا کہنا ہے کہ ایران اس مناسبت سے چین کے ساتھ ڈیل کو حتمی شکل دے سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ پراجیکٹ چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو‘ کی طرز کا ہے اور بیجنگ حکومت خطے میں اپنی رابطہ کاری کو مزید وسعت دینے کے لیے اس پر مثبت انداز میں سوچ سکتی ہے۔

زیادہ رابطہ اور تجارتی آسانیاں

فاطمہ امان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ مکمل ہو جاتا ہے تو لوگوں کی نقل و حمل میں اضافے کے ساتھ ساتھ تینوں ملکوں کے تجارتی حجم میں غیر معمولی اضافے کا باعث بھی ہو گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ آپریشنل ہونے کی صورت میں سفر کا ایک بہتر اور محفوظ ذریعہ ثابت بن سکے گا۔

ریلوے انجنوں کی درآمد، پاکستانی ٹیم بھارت میں

وارسا وار اسٹدیز اکیڈمی کے ریسرچر لوکاس پریزبائسیوسکی کا کہنا ہے کہ 'آئی ٹی آئی ریل لنک‘ ایک طویل مدتی پراجیکٹ ہے اور کئی سالوں میں مکمل ہو نے کا امکان ہے، طویل مدتی منصوبے بسا اوقات مزید تاخیر کا بھی شکار ہو جاتے ہیں لیکن ایک بار مکمل ہونے پر ان ممالک کے عام افراد اور مذہبی زائرین بھی ایک مقام سے دوسری منزل تک آسانی سے پہنچ سکیں گے۔

سکیورٹی خطرات

اسلام آباد میں مقیم تجزیہ کار ٹام حسین کا خیال ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل پر سامان بردار ریل گاڑیاں زیادہ روانہ ہو سکیں گی۔ اس کے علاوہ تعطل کے شکار گیس پائپ لائن منصوبوں کو مکمل کرنے کی کوئی صورت سامنے آ سکے گی اور اس خطے کے تعلقات بھی زیادہ بہتر ہو سکیں گے۔چین کا افغانستان میں بڑھتا ہوا کردار

انہوں نے دو اہم پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ریل منصوبے کے راستے میں حائل سکیورٹی خطرات بہت زیادہ ہیں۔

اس کے لیے ایران پر عائد امریکی پابندیوں کو ختم کرنا اور اس کے علاوہ افغان جنگ کا خاتمہ بھی بہت لازمی ہے۔ حسین کے خیال میں یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہو گا اور اس کے لیے وسیع سرمایہ درکار ہو گا، جس کے لیے تینوں ممالک اپنی کوششوں سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات روشن کر سکتے ہیں۔

ہارون جنجوعہ (ع ح، ع آ)