آصف زرداری نے براڈ شیٹ خریدنے کی کوشش کی

نیب نے براڈ شیٹ کو چھان بین سے روکا اور معاملات تباہ کیے،پاکستان میں نئی حکومت ہے اور ہم لوٹی دولت کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ براڈ شیٹ کے سربراہ کے نئے انکشافات

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان ہفتہ 16 جنوری 2021 12:16

آصف زرداری نے براڈ شیٹ خریدنے کی کوشش کی
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 جنوری2021ء) سابق وزیراعظم نواز شریف کے لندن میں موجود فلیٹس ایون فیلڈ کے حوالے سے برطانیہ کی براڈ شیٹ کمپنی کے چیف کیوے موسوی نے اہم انکشافات کیے ہیں۔نیب کے خلاف ہرجانے کا کیس جیتنے والی کمپنی براڈ شیٹ کے چیف کیوے موسوی کہا کہ فاروق ایچ نائیک اور آصف زرداری کے ساتھی راجہ نے ہم سے رابطہ کیا۔فاروق ایچ نائیک نے ہم سے سیٹلمنٹ کی بات کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ آپ شہزاد اکبر سے پوچھیں وہ معاملہ کیوں گھما رہے ہیں؟ شہزاد اکبر ہماری کارگردگی پر سوال اٹھا کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔میکسیکو سمیت کئی ملکوں میں ہماری تفتیش اور نتائج شاندار رہے۔ہماری شہرت کی وجہ سے ہی ہماری خدمات حاصل کی گئی تھیں۔کاوے موسوی نے کہا کہ پاکستان کو جو شواہد دئے اس پر کارروائی کو آگے بڑھایا جائے۔

(جاری ہے)

2 ملین ڈالر پر بات کرنے کے بجائے اربوں ڈالر کی ریکوری ہونی چاہئیے۔عدالتی فیصلے سے پہلے سمجھوتے کیوں کیے، انکوائری ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نیب نے براڈ شیٹ کو چھان بین سے روکا اور معاملات تباہ کیے۔ظفر علی نامی شخص کا براڈ شیٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے، جج نے تسلیم کیا کہ براڈ شیٹ لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگا رہی تھیں۔سی ای او براڈ شیٹ نے بتایا کہ ہم نے حکومت پاکستان سے تفتیش کا کہا لیکن ہماری نہیں سنی گئی۔

ہمیں دوبارہ تفتیش کے اختیارات دئیے ہی نہیں گئے۔پاکستان میں نئی حکومت ہے اور ہم لوٹی دولت کا سراغ لگا سکتے ہیں۔دوسری جانب براڈ شیٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے اپنے ایک بیان میں پاکستان کی حکومت کو پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کہیں تو ایون فیلڈ کی تحقیقات کریں گے، غیر قانونی اثاثوں کی تحقیق سے پیچھے ہٹنے کے لیے رشوت کی پیشکش کی گئی تھی۔

لیکن اب وزیراعظم عمران خان مشیر برائے وزیراعظم شہزاد اکبر نے براڈ شیٹ کی اس پیشکش پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ فی الوقت ہمارا براڈ شیٹ سے مدد لینے کا ارادہ نہیں ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ اس میں دو چیزیں ہیں۔ نیب کا قانون اُس کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ خود مختاری کے ساتھ معاہدے کرے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو احتساب سے متعلق چیزوں میں ہم حکومتی سطح پر رابطے کر رہے ہیں۔ پرائیویٹ تحقیقاتی اداروں کے ساتھ ہمارا ماضی میں کوئی اچھا تجربہ نہیں رہا، براڈ شیٹ کی مثال سب کے سامنے ہے۔