صحافی برادری کے مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں گے ‘ فردوس عاشق اعوان

صحافت اور سیاست بیک وقت نہیں چل سکتے، صحافت کو سیاست زدہ نہیں کرنا چاہئے ،نا ہی صحافیوں کو کسی جماعت کا ذیلی ونگ بننا چاہئے مسائل کے حل کیلئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار کی سربراہی میں چاروں صوبوں کی نمائندہ کمیٹی قائم کردی گئی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا لاہور پریس کلب میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی فیڈرل ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس سے خطاب

ہفتہ 16 جنوری 2021 21:42

صحافی برادری کے مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں گے ‘ فردوس عاشق ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جنوری2021ء) معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ صحافت اور سیاست بیک وقت نہیں چل سکتے، صحافت کو سیاست زدہ نہیں کرنا چاہئے اور نا ہی صحافیوں کو کسی جماعت کا ذیلی ونگ بننا چاہئے۔میڈیا کو بطور انڈسٹری اپنے رولز متعین کرنے چاہئیں-میڈیا او رحکومت کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدام کریں گے - صحافت کا شعبہ بھی اصلاحات کے عمل سے گذر رہاہے - پاکستان میں میڈیا یکسر بدل گیاہے سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا کو پس منظر میں دھکیل دیاہے -نئی میڈیا پالیسی میں اشتہارات کے معاملے میں پک اینڈ چوز کے رحجان کا خاتمہ کردیاگیاہے -ماضی میں جو کچھ بھی غلط ہوا اس کو جاری نہیں رکھ سکتے -صحافی برادری کے مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں گے اس مقصد کے لئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار کی سربراہی میں چاروں صوبوں کی نمائندہ کمیٹی قائم کردی گئی ہے - کمیٹی کا وفد صحافتی مسائل کے حل کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کرے گا -ان خیالات کا اظہار معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے لاہور پریس کلب میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی فیڈرل ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی آواز عوام کی آواز ہے ۔جہاں حکومت صحافیوں کے مسائل حل کرنے کیلئے سنجیدہ ہے وہاں صحافیوں کو بھی حکومتی موقف سے برابری کا سلوک کرنا چاہیے۔ صحافت ایک ایسا آئینہ ہے جو معاشرے کے مسائل حکومت کو دکھاتا ہے،۔میڈیا اور حکومت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں -صحافی برادری کے حکومت کے ساتھ گلے شکوے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں ہر شخص کو آزادی اظہار رائے حاصل ہے۔

صحافی عوام کے مفاد کے لئے جو چاہیں وہ بولیں یا لکھیں یہ انکا حق ہے مگر ان کو ریاستی مفاد کو بھی مقدم رکھنا چاہیی- عوام کے مفاد کو اجاگر کرتے ہوئے ریاست کے مفاد کو نظر انداز نہیں ہونا چاہئے۔وزیر اعظم عمران خان ادارں میں اصلاحات کا عوام سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنے کیلئے ہر ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔ صحافت بھی ایک ادارہ ہے مگر یہاں میڈیا ورکرز اور میڈیا مالکان کے مفادات مختلف ہیں۔

صحافتی تنظیموں کو چاہئے کہ یک زبان اور متحد ہو کر اپنے مسائل کیلئے بات کریں ۔ سابق حکومتوں نے بجٹ کی منظوری کے بغیر اشتہارات دیئے۔ اگر پہلے غلط ہو رہا تھا تو اب اس کو صحیح ہونا چاہئے - سابقہ حکمرانوں نے من پسند میڈیا ہاؤسز کو نوازنے کیلئے قوم کا پیسہ ذاتی تشہیر پر خرچ کیا ، ہماری حکومت نے میڈیا کو اشتہارات دینے کیلئے منظم طریقہ کار اپنایا ہے۔

معاون خصوصی نے کہاکہ پنجاب حکومت نے کرونا سے متاثرہ صحافیوں کو جرنل لسٹ سپورٹ فنڈ کی مد میں پونے دو کروڑ کی امداد مہیا کی۔ پنجاب حکومت صوبہ میں نیو میڈیا پالیسی لا رہی ہے جس کی تشکیل میں صحافیوں کی آراء کو اہمیت دی جائے گی ۔ڈی جی پی آر کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے ادارے میں میڈیا ٹاور کی تعمیر اور صحافیوں کیلئے ٹریننگ اکیڈمی بنانے کے منصوبے کیلئے اگلے بجٹ میں فنڈز مختص کئے جائیں گے - ملک میں سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہاکہ شہباز شریف کی عدالت پیشی کے موقع پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں اور ایک ملزم کو ہیرو بناکر پیش کیا گیا۔

ہمارے معاشرے میں عدالتوں سے سزا یافتہ لوگ وکٹری کا نشان بنا کراور پھولوں کا ہار پہن کر فخریہ چلتے ہیں۔ یہ لوگ ایک تو چوری کرتے ہیں پھر سینہ زوری بھی کرتے ہیں۔ یہ راہبر کے روپ میں عوام کو راہزن بن کر لوٹتے رہے ہیں۔راجکماری نیب عدالت میں اپنے چچا کو قطری خط اور کیلبری فونٹ جیسے مشورے دینے گئی تھیں۔ انہو ںنے کہاکہ نومبر گیا، دسمبر گیا، آدھا جنوری بھی گزر گیا اب راجکماری بتائیں انکا آر یا پار کہاں گیا۔

پہلے ہی کہا تھا کہ نہ آر ہو گا نا پار ہوگا بلکہ پی ڈی ایم کی مہم جوئی کا نتیجہ ہار ہوگا-یہ سارا شور شرابا کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے۔پی ڈی ایم بازی گروں کا ایک ٹولہ ہے ۔یہ بظاہر تو اتحاد میں رہتے ہیں اور گلگت الیکشن ہو یا ضمنی الیکشن باہم دست و گریبان بھی ہو جاتے ہیں۔ سب کو پتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پہلے استعفوں کے مطالبے کو نہیں مانا ،پھر ضمنی الیکشن کے بائیکاٹ سے انکار کیا۔

نواز شریف کو گڑھی خدا بخش میں تقریر کرنے کی اجازت نہ دی گئی ، نہ بلاول الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرے میں جا رہا ہی- وہ راولپنڈی پر چڑھائی کے معاملے پر بھی ان کا ساتھ چھوڑ گیا ہے۔پی ڈی ایم کا عدالت، عوام اور میڈیا میں الگ الگ بیانیہ چل رہا ہی- انکا بیانیہ ذاتی مفاد سے جڑا ہے اگر یہ لوگ عوام کے مفاد میں ایک بیانیہ لے کر آئیں تو حکومت ان سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔