بھارت: کورونا ویکسین کے سائیڈ افیکٹس سے سینکڑوں متاثر

DW ڈی ڈبلیو پیر 18 جنوری 2021 17:20

بھارت: کورونا ویکسین کے سائیڈ افیکٹس سے سینکڑوں متاثر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جنوری 2021ء) بھارت نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے سولہ جنوری سے ویکسین لگانے کی'دنیا کی سب سے بڑی مہم‘ شروع کی ہے۔ اس کے تحت اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ افراد کو ٹیکہ لگایا جا چکا ہے۔ تاہم ریاست اتر پردیش میں طبی عملے کے ایک شخص کی ٹیکہ لگانے کے دوسرے ہی دن موت ہوجانے سے ویکسین کی افادیت اور سائیڈ افیکٹ پر مزید سوالات اٹھ رہے ہیں۔

ضلع مراد آباد کے سرکاری اسپتال میں کام کرنے والے ایک ملازم مہیپال سنگھ کو سنیچر کے روز ٹیکہ لگایا گیا اور اتوار کی شام کو ان کی موت ہوگئی۔ مہیپال سنگھ کے بیٹے وشال کا کہنا ہے ٹیکہ لگانے سے پہلے بھی ان کے والد کی طبیعت تھوڑی ناساز ضرور تھی تاہم، ''ویکیسین لگنے کے بعد ان کی حالت اتنی زیادہ بگڑ گئی کہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ان کی موت ہوگئی۔

(جاری ہے)

''

ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کی موت ویکسین کے سبب نہیں ہوئی۔ مرادآباد کے چیف میڈیکل افسر ایم سی گرگ نے میڈیا سے بات چیت میں کہا، ''ہم ان کی موت کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں لگتا ہے کہ ویکسین کے رد عمل سے ان کی موت ہوئی ہو۔ انہوں نے سنیچر کی رات کو ڈیوٹی بھی کی تھی اور اس وقت انہیں کوئی بھی مشکل پیش نہیں آئی۔

''

ریاستی حکومت نے متوفی کی پوسٹ مارٹم رپوٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے جبکہ ان میں دیگر پیچیدگیاں بھی پائی گئی ہیں۔ طبی ماہرین نے تاہم مزید تفتیش کے لیے ان کے خون کے نمونے محفوظ کر لیے ہیں۔لیکن متوفی کے بیٹے نے الزام عائد کیا کہ ویکسین لگانے سے پہلے ان کے والد کا میڈیکل چیک اپ نہیں کیا گیا اور، ''ٹیکہ لگانے کے بعد جب میں ان کو گھر لایا تو ان کی سانس ٹوٹ رہی تھی۔

میں تو یہی کہوں گا جو کچھ بھی ہوا وہ ویکسین کی وجہ سے ہوا اور میں اس کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔''

حکومت نے دو روز کے دوران ویکسین لگانے کے بعد جو ڈیٹا جاری کیا ہے اس کے مطابق ساڑھے چار سو سے زیادہ افراد پر ٹیکے کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس میں سے دہلی سمیت متعدد شہروں میں افراد کو علاج کے لیے ہسپتال میں بھرتی کرنا پڑا جن میں سے زیادہ تر کی حالت مستحکم بتائی جا رہی ہے۔

ایسے بیشتر افراد میں درد، معمولی سوجن، ہلکے بخار یا پھر متلی جیسی علامات پائی گئی ہیں۔ بہت سے طبی ماہرین کے مطابق ویکسینیشن کے بعد اس طرح کی الرجک ری ایکشن ایک عام سی بات ہے۔

بھارت کے ڈرگ ریگولیٹرنے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی 'کووی شیلڈ‘ اور بھارت بائیو ٹیک کی'کوویکسین‘ کو ہنگامی طور پر استعمال کی اجازت دی تھی جس کے بعد حکومت نے سولہ جنوری سے ملک میں ویکسینیشن پروگرام شروع کیا۔

کووی شیلڈ کو آکسفورڈ آسٹرازینکانے تیار کیا ہے تاہم اس کا پروڈکشن بھارت میں ہورہا ہے۔

بہت سے ماہرین بھارتی کمپنی بھارت بائیوٹیک کے تیار کردہ ''کوویکسین'' کی افادیت پر یہ کہہ کر سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ اس ویکسین کا تیسرے مرحلے کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے اور ٹرائل کی بنیاد پر ایسی ویکسین کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ 'بھارت بائیو ٹیک' نے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے لیے رضاکاروں کا رجسٹریشن تک مکمل نہیں کیا تھا اور تجربے کے دوران مبینہ طورپر ایک شخص کی موت بھی ہوگئی تھی۔

ان تمام شکایتوں کے باوجود حکومت نے ایک ساتھ دونوں ویکسین لگانے کا فیصلہ کیا جس پر عمل جاری ہے۔ حکومت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جس شخص کو ویکسین دی جا رہی ہوگی اسے اس بات کے حق نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند کی ویکسین کا انتخاب کر سکے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ مرکزی حکومت نے اپنے ماتحت ہسپتالوں کے عملے کے لیے آکسفرڈ کی ویکسین کا انتخاب کیا ہے جبکہ دیگر کے لیے کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔

اس دوران دارالحکومت دہلی میں رام منوہر لوہیا اسپتال کے ڈاکٹروں نے بطور احتجاج حکومت سے کہا کہ وہ آکسفورڈ کی تیار کردہ کووی شیلڈ ویکسین ہی لگوانا چاہیں گے اور بھارتی کمپنی کی'کوویکسین‘ کا بائیکاٹ کریں گے۔ ڈاکٹروں کی تنظیم نے اس حوالے سے ہسپتال انتظامیہ کو باضابطہ خط ارسال کیا ہے اور اس کی نقل میڈیا کو بھی جاری کردی ہے۔