گومل یونیورسٹی میں ڈگریوں سے جُڑی ہوئی ماضی کی بے بنیاد خبروں کا آخر کار ڈراپ سین

پیر 18 جنوری 2021 20:25

ڈیرہ اسماعیل خان(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 جنوری2021ء) چانسلر گومل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے کہا کہ آج کا دن گومل یونیورسٹی کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دور میں جو جعلی ڈگریوں کے نام سے اس مادرعلمی کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی گئی وہ انتہائی قابل افسوس ہے ۔ اِس حوالے سے ماضی میں جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اُس نے ایگزام سیکشن میں 2013 سے 2016 تک موجود 4 سالہ ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لئے بغیر انتہائی جلد بازی میں رزلٹ میں موجود خامیوں کو جعلی ڈگریوں سے منسوب کیا جو بعد کی تحقیقات میں سراسر غلط ثابت ہوا اور اس 4 سالہ ریکارڈ میں ایک بھی ڈگری جعلی نہیں پائی گئی ۔

اُن کی اِس غیر ذمہ دارانہ رپورٹ سے گومل یونیورسٹی کو تعلیمی میدان میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ شاید امتحانی معاملات کا تجربہ نہ ہونے کے سبب وہ کمیٹی یہ بنیادی نقطہ نہ سمجھ سکی کہ ایگزام سیکشن کے ریکارڈ میں کیا گیا جمع تفریق کا فرق ٹیمپرنگ تو کہلایا جا سکتا ہے جعلی ڈگری نہیں ۔ وائس چانسلر ڈاکٹر افتخار احمد نے مزید کہا کہ بطور وائس چانسلر گومل یونیورسٹی کا چارج سنبھالا تو مجھے بتایا گیا کہ گومل یونیورسٹی کے چند دیرینہ اور توجہ طلب مسائل میں سب سے اہم اِس متنازعہ خبر کا جائزہ لینا ہے جو جعلی ڈگریوں کے نام سے میڈیا میں اور عوامی حلقوں میں گردش کر رہی تھی ۔

جس پر آتے ہی سب سے پہلے ڈاکٹر محمد صفدر بلوچ کو کنٹرولر امتحانات اور ڈاکٹر اصغر علی خان کو ایڈیشنل کنٹرولر امتحانات تعینات کیا تاکہ وہ ایگزام سیکشن میں موجود ہر قِسم کی انتظامی اور تکنیکی خامیوں کا جائزہ لیں اور گومل یونیورسٹی کے منظور شدہ قوانین کی روشنی میں اِن مسائل کا حل تجویز کریں ۔ وائس چانسلر نے مزید کہا کہ ان ڈگریوں کے مسئلہ کو تمام قانونی تقاضوں کے تناظر میںنہایت باریک بینی سے دیکھنے کیلئے امتحانی معاملات کا کم و بیش 30سالہ تجربہ رکھنے والے کنٹرولر امتحانات ملاکنڈ یونیورسٹی شاہد خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں گومل یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے دو معزز اراکین پرنسپل گرلز ڈگری کالج نمبر1شفقت یاسمین اور پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج درابن شکیل ملک سمیت کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر محمد صفدر بلوچ اور ایڈیشنل کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر اصغر علی خان شامل تھے ۔

مذکورہ بالا کمیٹی مسلسل 6 ماہ ایگزام سیکشن میں موجود تمام ریکارڈ کا جائزہ لیتی رہی اور بالآخر اُن کی دِن رات کی محنت سے یونیورسٹی انتظامیہ ڈگریوں میں موجود مسائل کا حل تلاش کرنے میں الحمد اللہ کامیاب ہوئی ۔ اِس کمیٹی کی سفارشات کو گومل یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ میٹنگ میں پیش کیا گیا جو کہ فیصلہ سازی کے حوالے سے یونیورسٹی کا اہم ترین اور مجاز فورم ہے ۔

سنڈیکیٹ کے معزز اراکین نے اِن سفارشات کاجائزہ لینے کے بعداِن کو بے حد سراہا اور بغیر کسی تبدیلی کے مًن و عًن منظور کر لیاہے۔ وائس چانسلر نے مزید کہا کہ یہاں یہ بات بتانا نہایت اہم ہے کہ اِس کمیٹی کے وُضع کردہ طریقہ کار سے ڈِگریوں کی تصدیق کا معاملہ مرحلہ وار شروع کر دیا جائے گا اور اکثریت لوگوں کے ڈگریوں سے جُڑے ہوئے مسائل اِس طریقہ کار سے اِنشاء اللہ حًل ہو جائینگے ۔

البتہ وہ لوگ جو غیر قانونی طریقہ کار اپنا کر اپنے نمبر یا ڈویژن بڑھاتے رہے اُن کے لئے موجودہ وُضع کردہ طریقہ کار میں کسی قِسم کی کوئی گُنجائش نہیں اور نہ ہی ایگزام سیکشن کے اُن اہلکاروں اور ذمہ داروں کیلئے کوئی رعایت ہے جو ماضی میں ذاتی یا مالی مفاد کی خاطر اِس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔ ڈاکٹر افتخار احمد نے مزید کہا کہ اِس سلسلے میں گومل یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے ایک اعلیٰ سطحی اِنکوائری کمیٹی مقرر کرنے کا حکم دیا ہے جو ماضی میں ایگزام سیکشن میں موجود اُن کالی بھیڑوں کی نشاندھی کرنے کیساتھ ساتھ اُن کے خلاف ضابطہ قانون کے مطابق کارروائی کرنے کیلئے اپنی سفارشات مُرتب کرے ۔

اس موقع پر گومل یونیورسٹی سنڈیکیٹ ممبران نے کہاکہ ہم مالاکنڈ یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات شاہد خان کے مشکور ہیں جنہوں نے اپنی مصروفیات سے وقت نکا لا اور اپنی ماہرانہ رائے اور تجربہ سے اس اہم ترین مسئلہ کے حل میں گومل یونیورسٹی کی رہنمائی کی جس پر گومل یونیورسٹی اور تمام سنڈیکیٹ ممبران شاہد خان کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔ اس موقع پر گومل سنڈیکیٹ ممبران نے کمیٹی کے سربراہ شاہد خان سمیت تمام ممبران کو تعریفی سرٹیفیکیٹ دینے کا حکم بھی جاری فرمایا۔ جن کی دن رات کی محنت سے گومل یونیورسٹی کا یہ اہم ترین مسئلہ حل ہوا۔