بائیڈن انتظامیہ اور پاکستان کی توقعات

DW ڈی ڈبلیو پیر 18 جنوری 2021 18:40

بائیڈن انتظامیہ اور پاکستان کی توقعات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جنوری 2021ء) پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ایک اہم حلیف رہا ہے جس کا اقرار ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر جارج بش نے بھی کیا۔ صدر بش کا کہنا تھا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی مدد کے بغیر نہیں لڑ سکتا تھا۔

صدر باراک اوباما کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا، انہیں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی نژاد امریکیوں کی حمایت بھی حاصل تھی مگر ان کے دورحکومت میں امریک‍‍ا اورپاکستان کے تعلقات سرد رہے۔

اس کی وجہ اوباما حکومت نے پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانے اور القاعدہ کی پاکستان میں موجودگی بتائی تھی۔ اس طویل سرد سیاسی مدت کے بعد ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا آغاز ہوا۔

(جاری ہے)

چار سال کی صدارتی مدّت کے ابتدائی دوسال کے دوران پاکستان اور امریکا کے تعلقات دباؤ کا شکار رہے جس میں صدر ٹرمپ نے پاکستان امریکی تعلقات کو جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے پاکستان کی 1.3بلین ڈالرز کی سکیورٹی امداد بند کر دی۔

مگر یہ صورت حال گزشتہ دو سالوں میں بہت مختلف نظر آئی۔ صدر ٹرمپ امریکی افواج کا افغانستان سے پرامن انخلاء چاہتے تھے جس کے لیے انہیں پاکستان کی مدد کی ضرورت تھی۔ اس سلسلے میں پاکستان نے ایک اہم کردار ادا کیا جس سے پاکستان اور امریکا کے درمیان بہتر تعلقات کا دوبارہ آغاز ہوا۔ اب جبکہ ری پبلکن حکومت ختم ہو رہی ہے اور ڈیموکریٹک حکومت اپنے چار سال شروع کرنے والی ہے، یہ سوال بہت اہم ہے کہ پاکستان، امریکا تعلقات کی صورتحال کیا رہے گی؟

امریکی صدارتی انتخابات: ’چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں‘

بائیڈن کی حلف برداری تقریب سے قبل مظاہرے

امریکا: بائیڈن کی حلف برداری سے قبل سکیورٹی انتہائی سخت

واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹراسد مجید نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاک امریکا تعلقات اتنے ہی پرانے ہیں جتنا کہ خود پاکستان۔ نو منتخب صدر بائیڈن کی انتظامیہ سے وابستہ پاکستان کی توقعات پر ان کا کہنا تھا، ''بائیڈن کی تجربہ کار ٹیم پاکستان اور امریکا کے سفارتی تعلقات اور خطے میں اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے اور پاکستان، امریکا کےساتھ دوطرفہ علاقائی تعلقات پر مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔

‘‘

افغانستان سے امریکی افواج کے پر امن انخلا اورافغانستان میں امن کے قیام میں پاکستان کے اہم کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام پاکستان اور امریکا کا مشترکہ مقصد ہے جس میں پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔‘‘

تاہم پاکستانی صحافی اور ڈیلی ٹائمز پاکستان کے سفارتی امور کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر، حسن خان کہتے ہیں کہا کہ بائیڈن حکومت سے پاکستان کی توقعات درمیانے درجے کی ہونی چاہییں۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ امریکا اور پاکستان دونوں افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں اس لیے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات مستحکم رہیں گے۔ حسن کے تجزیے کے مطابق کشمیر کا مسئلہ اسلام آباد کی اولین ترجیح ہو گی اور وزیر اعظم عمران خان یقیناﹰ اس کا پرامن حل چاہیں گے مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ حل کن شرائط و ضوابط پر منحصر ہوگا؟

’پاک پیک یو ایس اے‘ ا کے قومی بورڈ کے صدر ڈاکٹر کامران راؤ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آنے والی بائیڈن انتظامیہ سے توقعات وابستہ کرنے سے پہلے پاکستان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ امریکا، اسرائیل یا امریکا، بھارت تعلقات برسوں کی محنت کا نتیجہ ہیں جبکہ پاکستان نے ان تعلقات پر کام ابھی شروع کیا ہے۔

یہ ایک طویل جدوجہد ہے جس کے خاطر خواہ نتائج دیکھنے کے لیے ہمیں اس کی نگہداشت کرنا پڑے گی۔

کشمیر کے حوالے سے بھارت کی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بائیڈن حکومت سے بیشتر پاکستانیوں کی توقعات وابستہ ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر راؤ کا کہنا ہے، ''بائیڈن انتظامیہ کا ایک بڑا حصّہ بھارتی نژاد امریکیوں پرمشتمل ہے، اس لیے یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔

اس کے علاوہ ہمیں امریکا میں مقیم کشمیریوں میں اتحاد نظر نہیں آتا۔ اصل کشمیریوں کی نمائندگی بھی نظر نہیں آتی، زیادہ تر وہ کشمیری ہیں جن کا تعلق آزاد جموں و کشمیر سے ہے اور جن کا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔‘‘

اسی مسئلے پر ڈیلی ٹائمزکے حسن خان کا کہنا ہے، ''بائیڈن حکومت سے پاکستان کی توقعات کشمیر کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہوں گی۔

صدر ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے میں دو مرتبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی مگر نئی دہلی کا ردعمل مثبت نہیں تھا۔‘‘

امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمالہ ہیرس کی حکومت سے پاکستانیوں کی کئی توقعات وابستہ ہیں۔ اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ جن مضبوط سفارتی تعلقات کا آغاز صدر ٹرمپ کے آخری دو سالوں میں دیکھا گیا، کیا بائیڈن انتظامیہ اسی تسلسل کو برقرار رکھتی ہے یا اس میں کوئی تبدیلی آئے گی۔