واشنگٹن ڈی سی فوجی چھاﺅنی کا منظر پیش کرنے لگا

ٹرمپ الوداعی خطاب کریں گے یا نہیں تاحال فیصلہ نہیں ہوسکا‘کیپٹل ہل اور ڈاﺅن ٹاﺅن سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں عارضی رکاوٹیں ‘تمام ریاستوں میں بھی سیکورٹی ہائی الرٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 19 جنوری 2021 15:33

واشنگٹن ڈی سی فوجی چھاﺅنی کا منظر پیش کرنے لگا
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 جنوری ۔2021ء) امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی ان دنوں فوجی چھاﺅنی کا منظر پیش کر رہا ہے 117مربع کلومیٹر کے شہر میں عراق اور افغانستان سے پانچ گنا زیادہ فوجی دستے تعینات ہے نومنتخب صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس کی تقریب حلف برداری میں 24گھنٹے باقی رہ گئے ہیں .

(جاری ہے)

امریکی دارالحکومت مسلح فوجی دستوں سے بھر گیا ہے قانون نافذکرنے والے اداروں کی جانب سے کیپٹل ہل‘ڈاﺅن ٹاﺅن‘پنسلوینیا ایونیوسمیت گر دونواح کی تمام اہم سڑکوں اور گلیوں پر عارضی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں ڈاﺅن ٹاﺅن اور گرد نواح کے رہائشی اپنی شناخت کرواکر علاقے میں داخل ہوسکتے ہیں اسی طرح ہفتہ اور اتوار کو تمام عوامی مقامات عام شہریوں کے لیے بند رہیں گے مقامی نجی کاروبار بھی بند رہیں گے تاہم انہیں محدود پیمانے پر ہوم ڈیلوری سروس کی اجازت ہوگی.

ادھر امریکا کی تمام 50 ریاستوں میں بھی سخت حفاظتی انتظامات کیئے گئے ہیں کیونکہ ایف بی آئی اور قومی سلامتی کے اداروں کی جانب سے تمام ریاستوں میں سفید فام سپرمیسی پر یقین رکھنے والی تنظیموں کی جانب سے ممکنہ مسلح مظاہروں کا الرٹ جاری کیا گیا ہے‘واضح رہے کہ شہر میں وفاقی اور میئرکی جانب سے 6جنوری سے ہنگامی حالت نافذ ہے. امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق واشنگٹن ڈی سی کی میٹرپولیٹن پولیس‘ایف بی آئی‘نیشنل سیکورٹی ایجنسی(این ایس اے)‘سیکرٹریٹ سروس اور امریکن مارشلزکے ہزاروں اہلکار 20ہزار فوجی دستوں کے علاوہ خدمات انجام دے رہے ہیں ‘ امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے متنبہ کیا ہے کہ تمام ریاستوں میں6جنوری کی طرزپر صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے پرتشددمسلح احتجاجی مظاہرے ہوسکتے ہیں.

نومنتخب صدرجو بائیڈن کی ٹیم کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے حلف اٹھانے کے بعد فوری اقدامات کے لیے ایک منصوبہ تشکیل دیا ہے جس کے تحت ٹرمپ کی اہم پالیسیوں کو واپس لیا جائے گا بائیڈن صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو ختم کرنے کے لیے صدارتی حکم نامے جاری کریں گے امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ان اقدامات میں امریکہ کو دوبارہ پیرس معاہدے کا حصہ بنا نا‘ مسلم اکثریتی ممالک پر متنازع سفر پابندیوں کا خاتمہ‘ وفاقی عمارتوں میں اور ایک ریاست سے دوسری ریاست میں سفر کے دوران چہرے پر ماسک پہننا لازم قرار دیئے جانے جیسے اقدامات سرفہرست ہیں.

صدر ٹرمپ کی طرح بائیڈن بھی صدارتی حکم ناموں کا استعمال کریں گے جس سے وہ کانگریس کو بائی پاس کریں گے لیکن گذشتہ ہفتے انہوں نے امریکی شہریوں کی امداد کے لیے جو 1.9 ٹریلین ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا تھا اس پر قانون سازوں کی منظوری درکار ہوگی امیگریشن (دوسرے ممالک سے لوگوں کی منتقلی) کے عمل میں اصلاحات کے بل پر بھی قانون ساز بحث کر سکتے ہیں.

سیکورٹی انتظامات کے حوالے سے مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی کا اکثر حصہ لاک ڈاﺅن ہے کیپٹل ہل سے کئی میل دور بھی سڑکیں بند کر دی گئی ہیں اور وہاں کنکریٹ اور دھات کی رکاوٹیں نصب ہیں حلف برداری کی تقاریب کے دوران نیشنل مال جہاں عام طور پر لوگوں کا رش ہوتا ہے اسے بھی سیکرٹ سروس کی درخواست پر بند کر دیا گیا ہے سیکرٹ سروس وہ ادارہ ہے جو امریکی صدور کی حفاظت کرتا ہے اور انھیں سکیورٹی فراہم کرتا ہے چاہے وہ بعد میں عہدے سے ہٹ چکے ہوں بائیڈن کی ٹیم نے پہلے ہی کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے امریکیوں سے واشنگٹن ڈی سی سفر نہ کرنے کی درخواست کر رکھی ہے مقامی حکام نے کہا ہے کہ لوگ یہ تقریب دور سے ہی دیکھیں.

ادھر انٹرنیٹ پر ٹرمپ کے حامیوں اور انتہائی دائیں بازوں کے سفید فام انتہا پسند تنظیموں نے اپنی ‘اپنی ریاستوں میں مسلح مظاہروں کی کال دے رکھی ہے تاہم کچھ مسلح گروہوں نے اپنے حامیوں سے ان مظاہروں میں نہ جانے کا کہا ہے انہوں نے کہا ہے کہ پولیس نے یہ مظاہرے ایک منصوبے کے تحت رکھوائے ہیں تاکہ ان میں شمولیت کرنے والے لوگوں کو حراست میں لیا جاسکے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان مسلح مظاہروں میں سکیورٹی کے سخت انتظامات ہوسکتے ہیں.

امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میںزمین پر فوجی دستوں کے علاوہ واشنگٹن کی فضاءمیں امریکی فضائیہ کے جنگی جہاز‘گن شپ ہیلی کاپٹراور ڈرونزنگرانی کریں گے تاہم محکمہ دفاع نے ان کی تعداد نہیں بتائی گئی نومنتخب صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کاملہ ہیرس سمیت ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے مختلف وزارتوں اور اہم عہدوں کے لیے نامزد شخصیات کو سیکریٹ سروس سیکورٹی فراہم کر رہی ہے.

پورے ملک میں مسلح مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر تمام ریاستوں نے ریاستی اسمبلیوں اور دیگر اہم سرکاری عمارتوں کی سکیورٹی بڑھا دی ہے ریاست میری لینڈ، نیو میکسیکو اور یوٹاہ کے گورنروں نے ممکنہ مظاہروں کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ کردی ہے گئی ہے کیلی فورنیا، پینسلوینیا، مشی گن، ورجینیا، واشنگٹن اور وسکانسن میں نیشنل گارڈ کے فوجی دستے متحرک ہوچکے ہیں ریاست ٹیکساس میں ریاستی عمارتوں کو 20جنوری کی رات تک بند رکھا جائے گا.

قومی سلامتی کے ادارے ریاست میری لینڈ ‘ورجینیا ‘ویسٹ ورجینیا اور پنسلوینا کے زمینی راستوں ‘ٹرینوں کی کڑی نگرانی کررہے ہیں کیونکہ یہ ریاستیں دارالحکومت واشنگٹن ڈی سے قریب ترین ہیں واشنگٹن میں ہوائی جہازسے آنے جانے کے لیے واشنگٹن ڈی سی کے ڈیلس انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور ریگن نیشنل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے علاوہ میری لینڈ کا بالٹی مور ایئرپورٹ اور ریاست ورجنیا کے شہر الیگزینڈریا کا ایئرپورٹ بھی استعمال کیئے جاتے ہیں اگرچہ ریاست میری لینڈ ‘ورجینیا اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی ڈیموکریٹس اکثریتی ریاستیں ہیں مگر قانون نافذکرنے والے ادارے کسی قسم کا رسک لینے کو تیار نہیں ہیں.

امریکی حکام اس حد تک مستعد ہیں کہ واشنگٹن کی گلیوں میں بھی نیشنل گارڈز تعینات ہیں جو کسی بھی بدنظمی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے گلیوں میں گشت کررہے ہیں ان سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی 6 جنوری کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر حملے کے بعد کی گئی تھی اور وہ اسی دن سے کیپٹل ہل کے ایریا میں تعینات ہیں مگر گزشتہ روز انہیں اردگرد کے علاقوں اور شہر کے داخلی وخارجی راستوں پر بھی تعینات کردیا گیا ہے .

واشنگٹن کے ایک مقامی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ کے حامی دوبارہ6جنوری جیسا حملہ کرسکتے ہیں صرف سیکیورٹی حکام ہی نہیں بلکہ وائٹ ہاﺅس کے اسٹاف کی بھی دوڑیں لگی ہوئی ہیں جن کے پاس نئے صدر کے لیے رہائش گاہ کو آراستہ کرنے کے لیے محض 5 گھنٹے کا وقت ہو گا 20 جنوری کو منتخب صدر جو بائیڈن موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ لیں گے اور امریکی تاریخ کے 46ویں صدر بن جائیں گے.

ڈونلڈ ٹرمپ20جنوری کی صبح وائٹ ہاﺅس چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور بائیڈن حلف برداری کی تقریب کے بعد دن کے وسط میں وائٹ ہاﺅس میں قدم رکھیں گے ابھی تک موجودہ امریکی صدر نے اپنا الوداعی بیان نہیں دیا لیکن خاتون اول نے اپنا بیان دے دیا ہے جنہوں نے 7 منٹ پر محیط اپنے الوداعی بیان میں کہا کہ میں تمام امریکیوں سے کہتی ہوں کہ ان چیزوں پر توجہ دیں جو ہمیں متحد کرتی ہیں اور ان تمام چیزوں سے بالاتر ہو جائیں جو ہمیں تقسیم کرتی ہیں، نفرت کے اوپر محبت، تشدد پر امن اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیں.

منتخب صدر جو بائیڈن کو منقسم قوم کو متحد کرنے کا چیلنج درپیش ہے اور وہ عندیہ دے چکے ہیں کہ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی ان کی اولین ترجیح ہو گی اور اس کے بعد وہ قوم کے ان زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کریں گے جو 6جنوری کو کیپٹل ہل پر حملے سے لگے تھے انہوں نے ریاست ڈیلاﺅیرمیں اپنی رہائش گاہ پر ایک خطاب میں کہا کہ ہماری انتظامیہ سائنس اور سائنسدانوں کی رہنمائی کرے گی جہاں سی ڈی سی اور این آئی ایچ(صحت کی ایجنسیاں) سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہوں گی، جہاں ایک آزاد سرجن جنرل عوام سے براہ راست مخاطب ہو سکے گا اور ایف ڈی اے فیصلے سائنس اور صرف اور صرف سائنس کی بنیاد پر لیے جائیں گے.

تاہم ٹرمپ کے حامیوں کی ممکنہ چڑھائی سے بڑھ کر بائیڈن انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ کورونا وائرس کی وبا ہے جس کے نتیجے میں امریکا میں اب تک 4لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور اسی کی وجہ سے بائیڈن نے اپنی اکثر افتتاحی تقاریب کو منسوخ کرتے ہوئے امریکی عوام پر زور دیا ہے کہ وہ افتتاحی تقریب اپنے گھروں پر ٹیلی ویژن ‘کمیپوٹرز اور موبائل پر بیٹھ کر دیکھیں امریکا کے 45ویں صدر ٹرمپ نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کریں گے اور وہ وائٹ ہاﺅس سے ریاست فلوریڈا روانہ ہونگے جہاں وہ 20جنوری کا دن گالف کورس میں گزاریں گے تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ حیران کر دینے والی اپنی عادت پر قائم رہتے ہوئے غیرمتوقع طور پر تقریب میں یکدم آدھمکے تو انہیں ہرگز حیرت نہ ہو گی.

البتہ اگر ٹرمپ اپنی بات پر قائم رہتے ہیں تو وہ 150سال میں پہلے امریکی صدر ہوں گے جو انے جانشین کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ انہیں مکمل پروٹوکول بلکہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر شان و شوکت کے ساتھ رخصت کیا جائے وہ چاہتے تھے کہ ان کے لیے پینٹاگون میں فوجی پیریڈ کا انعقاد کیا جائے جس میں تمام سروسز چیفس شرکت کریں جہاز اڑان بھر رہے ہوں اور ٹینک انہیں سلامی پیش کریں لیکن ان کی یہ خواہش مسترد کردی گئی جس کی ممکنہ طور پر وجہ 6جنوری کو ہجوم کی جانب سے کیا گیا حملہ ہے.

البتہ انہیں واشنگٹن کے قریب اینڈریو ایئر بیس پر فوجی ریڈ کارپٹ کے ذریعے الوداع کہا جائے گاوہ صدارتی طیارے ایئر فورس 1 کے ذریعے گھر کا رخ کریں گے اور فلوریڈا کا رخ کرتے ہوئے فوجی طیارہ بھی ان کے ہمراہ ہو گا جبکہ نئے صدر کی تقریب حلف برداری کے کچھ گھنٹوں بعد ایئر فورس 1 واپس لوٹ آئے گا کیونکہ جوبائیڈن کے حلف اٹھاتے ہی ایئرفورس ون ان کے استعمال میں آجائے گارپورٹس کے مطابق جانے سے قبل ٹرمپ ممکنہ طور پر 100 لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کریں گے جبکہ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق عین ممکن ہے کہ وہ جانے سے قبل 6 جنوری کے عمل کے لیے معافی کے طلبگار ہوں حالانکہ ان کے قانونی ماہرین نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا ہے کچھ رپورٹس کے مطابق جو لوگ 6 جنوری کو کیپٹل ہل پر چڑھائی میں شریک تھے انہیں بھی صدارتی معافی دیئے جانے کا امکان ہے.

امریکا کے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمہ کو معافی مانگنے پر مجبور کیا جائے گا کیونکہ کچھ ڈیموکریٹس پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں کہ ٹرمپ کے امریکی صدر کے منصب سے ہٹتے ہی وہ 6 جنوری کے عمل پر ٹرمپ کے خلاف مقدمہ کریں گے اس معاملے پر امریکی صدر کا مواخذہ بھی کیا جا چکا ہے جس کی وجہ سے وہ امریکی تاریخ کے پہلے صدر بن گئے ہیں جن کا دو بار مواخذہ کیا گیا ہے پہلا مواخذہ 2019 میں کیا گیا تھا جبکہ دوسرا جنوری 2021 میں ہوا.

ٹرمپ پر مواخذے میں فرد جرم عائد کیے جانے کے لیے ڈیموکریٹس کو دو تہائی اکثریت درکار ہو گی اور اس کے لیے ضروری ہو گا کہ کم از کم 17 ری پبلیکن بھی ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیں جو ممکن نظر نہیں آتا دو ریپبلیکن سینیٹرز ٹام کوٹن اور کنڈسے گراہم خبردار کر چکے ہیں کہ سابق امریکی صدر پر فرد جرم عائد کرنا غیرآئینی ہے لیکن ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ مستقبل میں ٹرم کو کسی بھی صدارتی انتخاب میں شرکت نہیں کرنے دیں گے.

ٹوئٹر اور فیس بک دونوں کی جانب سے پابندی کا شکار ٹرمپ اب اپنا میڈیا آﺅٹ لیٹ شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جسے وہ ایک مرتبہ پھر صدارتی عظمیٰ کے الیکشن لڑنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے بائیڈن کے ہاتھوں 3نومبر کے صدارتی انتخابات میں شکست کے باوجود ٹرمپ کا مستقبل روشن نظر آتا ہے کیونکہ انہوں نے صدارتی انتخابات میں کسی بھی امریکی صدر کے مقابلے میں سب سے زیادہ 7کروڑ 40 لاکھ سے زئاد ووٹس حاصل کیے ان کی قیادت میں ریپبلیکنز نے سینیٹ میں کئی سیٹیں حاصل کیں اور ایوان پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب رہے.