ٹرمپ نے مدت صدارت ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے73افراد کی معافی کا حکم نامہ جاری کردیا

امریکی قومی سلامتی کے اداروں نے سفید فام انتہا پسندی کے خطرے کا اندازہ لگانے میں دیر کی ہے.پاکستان پوائنٹ نیٹ ورک کے گروپ ایڈیٹر میاں محمد ندیم کی خصوصی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 20 جنوری 2021 16:47

ٹرمپ نے مدت صدارت ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے73افراد کی معافی کا حکم نامہ ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 جنوری ۔2021ء) امریکی صدر ٹرمپ کی چار سالہ صدارت کی مدت پوری ہونے میںچند گھنٹے باقی رہ گئے ہیں امریکی ایسٹرن ٹائم زون کے مطابق نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری 10بجے شروع ہوگی اورروایت کے مطابق دوپہر 12بجے(پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق رات 10بجے) وہ اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر امریکا کے 46ویں صدر بن جائیں گے.

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا الوداعی خطاب کرچکے ہیں جس میں خدشات کے برعکس انہوں نے خود کے لیے یا 6جنوری کو کیپٹل ہل پر حملہ آور ہونے والے سفید فام سپرمیسی کی تنظیموں کے کارکنوں اور اس حملہ میں ملوث ان کے حامی اراکین کانگریس کے لیے صدارتی معافی کا کوئی اعلان نہیں کیا.

(جاری ہے)

امریکا کے کئی نامور سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھاکہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے الوداعی خطاب میں صدارتی معافی کا اعلان کرسکتے ہیں تاہم ان کے خدشات غلط ثابت ہوگئے ہیں تاہم پاکستان پوائنٹ نیٹ ورک کے گروپ ایڈیٹر میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ ابھی بھی4گھنٹے باقی ہیں اور صدر ٹرمپ کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی غیرمعمولی صدارتی حکم نامے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے .

واضح رہے کہ امریکہ کے سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی چار سالہ مدتِ صدارت مکمل ہونے سے چند گھنٹے قبل 73 افراد کو صدارتی معافی دی ہے وائٹ ہاﺅس کے مطابق صدر ٹرمپ نے 70 دیگر افراد کی سزاﺅں میں کمی کا صدارتی فرمان بھی جاری کیا ہے. صدر ٹرمپ نے صدارتی معافی کا اعلان ایسے موقع پر کیا ہے جب نو منتخب صدر جو بائیڈن آج کی دوپہر 12 بجے اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اسی کے ساتھ صدر ٹرمپ کی مدت صدارت بھی مکمل ہو جائے گی وائٹ ہاﺅس کے مطابق صدر ٹرمپ نے جن افراد کو صدارتی معافی دی ہے ان میں صدر کے سابق کمپین مینیجر اور سینئر مشیر اسٹیو بینن بھی شامل ہیں.

اسٹیو بینن پر امریکہ اور میکسیکو کے درمیان سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے جمع کیے جانے والے چندے میں خورد برد کا الزام تھا اسی طرح صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے لیے چندہ دینے والے ایک نمایاں ڈونر ایلیٹ برائڈی کو بھی صدارتی معافی دی ہے جنہیں گزشتہ برس عدالت نے فارن لابنگ قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا تھا. امریکی صدر نے ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ کے سابق میئر ویم کلپیٹرک کی سزا میں کمی کر دی ہے ویم کلپیٹرک کو عدالت نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے رشوت، بھتہ خوری اور دھوکہ دہی کے جرم میں 20 برس قید کی سزا سنائی تھی صدر ٹرمپ نے لل ویان کے نام سے مشہور گلوکار ڈیان کارٹر جونیئر کی سزا میں بھی کمی کر دی ہے جنہیں عدالت نے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا مجرم قرار دیا تھا.

صدر ٹرمپ اپنے بہت سے اتحادیوں اور حامیوں کو پہلے ہی صدارتی معافی دے چکے ہیںان میں صدر کی انتخابی مہم کے سابق منیجر پال مینافورٹ، مشیر روجر اسٹون، قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کے والد چارلز کشنر شامل ہیں. تاہم ابھی تک صدر ٹرمپ کی جانب سے خود کو یا6جنوری کو امریکی پارلیمان پر حملہ آور ہونے والے سفید فام سپرمیسی کی تنظیموں کے کارکنوں یا اس میں ملوث ان کے قریبی ری پبلکن اراکین کانگریس کومعافی دینے کا کوئی حکم نامہ سامنے نہیں آیا .

میاں ندیم نے کہا کہ ان چند گھنٹوں میں بھی صدرٹرمپ کوئی بڑا”سرپرائز“دے سکتے ہیں اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے حالانکہ ان کے قانونی مشیران انہیں مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ صدارتی معافی کے اختیار کو اپنی ذات کے لیے استعمال نہ کریں انہوں نے کہا کہ امریکی تاریخ میں اس کی صرف ایک مثال موجود ہے جب 1974میں صدر رچرڈنکسن نے واٹر گیٹ اسکینڈل میں مواخذے کی کاروائی سے بچنے کے لیے استعفی دیدیا تھا اور ان کے نائب صدر جیرالڈ فورڈ صدر بن گئے تھے جنہوں نے رچرڈ نکسن کو امریکہ کے خلاف کیے گئے تمام جرائم پر صدارتی معافی دینے کا اعلان کیا تھا تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر رچرڈ نکسن مستعفی ہوئے تھے ناں کہ انہیں 25ویں ترمیم کے تحت معزول کیا گیا تھا ٹرمپ مستعفی ہوکر یا نائب صدر مائیک پنس 25ترمیم کے تحت انہیں معزول کرکے صدارت کا عہدہ سنبھال کر انہیں معافی دے سکتے تھے تاہم اب ان دنوں آپشنزکے استعمال کا وقت نہیں بچا کیونکہ صدرٹرمپ مستعفی ہونے کو تیار نہیں اور 25آئینی ترمیم کا استعمال وہ اس لیے نہیں کرسکتے کہ نائب صدر مائیک پنس اور ان کے درمیان اعتماد ختم ہوچکا ہے انتخابات کے بعد صدر ٹرمپ اور مائیک پنس بہت ہی کم مواقع پر ایک ساتھ نظر آئے ہیں اور 6جنوری کے بعد دونوں کے درمیان میں دوریاں اور بڑھ گئی تھیں اس لیے وہ خود سے نائب صدر کو 25ترمیم کے استعمال کا مشورہ نہیں دیں گے.

انہوں نے کہا کہ اس سب کچھ کے باوجود صدر ٹرمپ کی جانب سے کوئی بھی اقدام خارج ازامکان نہیں کیونکہ امریکی آئین کے تحت وہ اپنے عہدے کی مدت پوری ہونے سے چند منٹ پہلے بھی مستعفی ہوسکتے ہیں جس کے بعد چند منٹ کے لیے ہی سہی مگر مائیک پنس خودبخود صدر بن جائیں تاہم یہ مفروضے ہیں اس کا کوئی قوی امکان نظرنہیں آرہا انہوں نے کہا کہ امریکی قومی سلامتی کے اداروں نے سفید فام انتہا پسندی کے خطرے کا اندازہ لگانے اور ان کی جانب سے کسی بھی غیرمعمولی اقدام کو سمجھنے میں دیر کی ہے انہوں نے کہا کہ امریکی حساس اداروں کے کئی سابق اعلی عہدیدار اپنی کتابوں اور مضامین میں کئی دہائیوں سے اس خطرے کی نشاندہی کرتے آئے ہیں اگر اس کی روک تھام کے لیے بروقت اقدامات کرلیے جاتے تو آج واشنگٹن فوجی چھاﺅنی میں تبدیل ہوتا نہ ہی 6جنوری کا واقعہ پیش آتا.

انہوں نے کہا کہ تاخیر کے باوجود ایف بی آئی اور دیگر اداروں نے انتہائی موثر اقدامات کیئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کی تمام50ریاستوں میں چند چھوٹے موٹے مظاہروں کے علاوہ کوئی بڑا اور پرتشددواقعہ پیش نہیں آیا اور غالب امکان ہے کہ آج بھی کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آئے گا. انہوں نے ایف بی آئی کی حکمت عملی کو نفسیاتی حربہ قراردیتے ہوئے کہا کہ نومنتخب صدر کے حلف سے ایک دن پہلے ایف بی آئی نے نیا انتباہ جاری کرکے ”پراﺅڈبوائز“جیسے سفید فام سپرمیسی پر یقین رکھنے والے گروپوں اور تنظیموں کے کارکنوں کو نفسیاتی طور پر کشمکش میں مبتلا کیا ہے کہ خفیہ ادارے ان کے موبائل فونز‘سوشل میڈیا اکاﺅنٹس اور ویب سائٹس کی نگرانی کررہے ہیں.

انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے جہاں کورونا وائرس جیسے چیلنجزہیں وہیں انہیں سفید فام انہتا پسندی کے اس جن کو بھی بوتل میں بند کرنا بہت بڑاچیلنج ہوگاان کا کہنا ہے کہ سیاہ فام اور دیگر کمیونیزکا اعتماد بحال کرنے کے لیے کاﺅنٹی کی سطح سے لے کر وفاقی حکومتی اداروں تک انہیں مناسب نمائندگی دینا ہوگی انہوں نے اسے بھی بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج قراردیا کیونکہ کورونا کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہواان حالات میں نئی ملازمتیں پیدا کرنا‘ان کمیونٹیوں کو معاشی طور پر مستحکم کرنا اور انہوں نے جن حالات کا سامنا کیا ہے اس کی تلافی کے لیے صرف غیرسفید فام نائب صدر کا تقرراور کانگریس میں ان کی معمولی نمائندگی ہی کافی نہیں ہے.

یاد رہے کہ پچھلے ہفتے امریکی ذرائع ابلاغ میں اس خبر سے ہلچل مچ گئی تھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے قانونی ماہرین سے بطور صدر خود کو صدارتی معافی دینے کے بارے میں مشاورت کررہے ہیں جبکہ آئینی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگرچہ آئین میں اس کی وضاحت موجود نہیں ہے تاہم صدر خود کو معافی دے کر مستقبل میں آنے والوں کے لیے ایک بری مثال قائم کریں گے. کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا دورِ صدارت ختم ہونے سے قبل کیپٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کرانے کے الزامات کے تحت ممکنہ کارروائی اور سزا سے بچنے کے لیے صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے خود کو بھی معاف کر سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ سوال واشنگٹن میں ہی نہیں بلکہ پورے امریکا میں آئینی وقانونی ماہرین کے ہاں زیربحث رہا ہے چونکہ ٹرمپ ماضی میں بھی اس معاملے کو اٹھا چکے تھے اس لیے اس خبر کو انتہائی سنجیدگی سے لیا گیا تھا 2016 میں صدر کی انتخابی مہم کے روس سے روابط پر 2018 میں ہونے والی خصوصی تحقیقات پر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ خود کو معاف کر سکیں نے اگرچہ صدر ٹرمپ اپنے دور صدارت میں صدارتی معافی کے استعمال کا بے دریغ استعمال کیا ہے تاہم ان کے قانونی مشیران نے انہیں ایسے کسی بھی اقدام سے بازرہنے کا مشورہ دیا تھا.

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ 6جنوری کو کیپٹل ہل پر ہونے والے حملے کے بعد ان کی اہلیہ ملانیا ٹرمپ اور خاندان کے دیگر افراد نے انہیں قائل کیا تھا کہ وہ صرف اپنی قانونی مشیران سے منظور شدہ تقریرہی کریں یہی وجہ ہے کہ اس عرصے کے دوران انہیں میڈیا سے بھی دور رکھا گیا ہے ٹرمپ کے قانونی مشیران نے صدر کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس اختیار کو اپنی ذات کے لیے صدارتی معافی کے اختیار کو استعمال نہ کریں کیونکہ اپنی معافی کا اعلان ایک طرح سے خود کو قصور وار ٹہرانے کے مترادف ہو سکتا ہے .

امریکی صدر خود کو معاف کرسکتے ہیں یا نہیں امریکہ کا آئین اس معاملے میں وضاحت نہیں کرتا بلکہ اس معاملے پر خاموش ہے تاہم آئین کی دوسری شق کے تحت صدر کو اختیار حاصل ہے کہ امریکہ کے خلاف ہونے والے کسی جرم میں عارضی استثنیٰ یا مکمل معافی دے سکیں البتہ مواخذے کے معاملے میں یہ اختیار حاصل نہیں ہے ایسے میں آئین کے تحت دیے گئے اس اختیار کی مزید تشریح کی ضرورت موجود ہے .

امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر اور کتاب ”پریزیڈینشل پارڈن پاور“ کے مصنف جیفری کروچ کا کہنا تھا کہ کسی بھی صدر نے کبھی اپنی معافی کی کوشش نہیں کی اس لیے اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی نظیر موجود نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ماضی میں صرف صدررچرڈ نکسن نے اس حوالے سے سوچا تھا لیکن انہوں نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا وہ لوگ جن کے خیال میں صدر خود کو معاف کر سکتے ہیں وہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ ایسا کرنا آئین کے برعکس نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ صدارتی معافی کے یہ اختیار حاصل ہے کہ وفاقی نوعیت کے جرائم کو معاف کیا جا سکتا ہے تو اگر صدر نے خود کوئی وفاقی نوعیت کا جرم کیا ہو تو صدر کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ اپنے آپ کو معاف کر سکیں لیکن وہ لوگ جن کو اس رائے سے اتفاق نہیں ہے اور جو اکثریت میں بھی ہیں، وہ یہ بحث کرتے ہیں کہ ایسا اقدام جس میں معافی دینے کا عمل کیا جا رہا ہو، یہ ایک دوطرفہ اقدام ہے جس میں دو افراد کا شامل ہونا ضروری ہے.

یہ معاملہ اس لیے زیر بحث رہا ہے کہ صدر نکسن کی معافی امریکی پارلیمانی اور آئینی تاریخ کی متنازع ترین معافی ہے امریکی شہریوں اور آئینی ماہرین کے نظروں میں یہ ایک متنازعہ معاملہ رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے اس کے بعدری پبلکن صدر جیرالڈ فورڈکا سیاسی کیئریئرختم ہوگیا تھا اور 1976کے صدارتی انتخابات میں انہیں ڈیموکریٹ امیدوار صدر جمی کارٹر کے ہاتھوں بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا لہذا ری پبلکن پارٹی بھی اس معاملے میں محتاط رہی ہے کیونکہ بطور جماعت وہ 1976کے انتخابات کا ری پلے نہیں چاہتی اگرچہ جیرالڈ فورڈ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ انہوں نے ایسا قومی مفاد میں کیا تھا مگر ان کی اس دلیل کو قبولیت نہیں ملی ناقدین ہمیشہ سے کہتے ہیں یہ صدارتی معافی اس طرح تھی جیسے صدر رچرڈ نکسن نے خود کو معاف کیا ہو.