عہد صدارت ختم ہونے کے باوجود امریکی صدور کی شان و شوکت میں کوئی کمی نہیں آتی

سابق امریکی صدر کو سالانہ دو لاکھ 10 ہزار 700 ڈالرز پینشن ‘ سفری الاﺅنس کی مد میںسالانہ 10 لاکھ ڈالرز‘ اہلیہ کو پانچ لاکھ ڈالرز ملتے ہیں‘دفتری عملے‘سیکورٹی اور ڈرائیور کی سہولت کے علاوہ مرنے پر آخری رسومات بھی سرکاری طور پر اداکی جاتی ہیں.خصوصی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 20 جنوری 2021 18:04

عہد صدارت ختم ہونے کے باوجود امریکی صدور کی شان و شوکت میں کوئی کمی ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 جنوری ۔2021ء) عہد صدارت ختم ہونے کے باوجود امریکی صدور کی شان و شوکت میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آتی بلکہ انہیں زندگی بھر خطیر پینشن، مراعات اور سیکورٹی کے علاوہ دیگر سہولیات حاصل رہتی ہیں امریکی کانگریس نے 1958 میں پہلی مرتبہ سابق صدور ایکٹ منظور کیا تھا جس میں اس وقت امریکی صدر کی سالانہ پینشن 25 ہزار ڈالرز مقرر کی گئی تھی جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا اب سابق امریکی صدر کو سالانہ دو لاکھ 10 ہزار 700 ڈالرز پینشن ملتی ہے.

(جاری ہے)

دلچسپ امر یہ ہے کہ سابق صدور کو صحت سے متعلقہ فوائد بھی اسی صورت میں ملتے ہیں اگر وہ دو مرتبہ صدارت کے عہدے پر فائز ہوں امریکی قوانین کے مطابق وفاقی ملازمین کو پانچ سال کی ملازمت کے بعد ہی ہیلتھ بینیفیٹس ملتے ہیں سابق صدر براک اوباما، بل کلنٹن اور جارج ڈبلیو بش تو صحت کی سہولیات سے استفادہ کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے تاہم جمی کارٹر جو ایک مرتبہ صدر کے عہدے پر فائز رہے یا اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ انہیں بھی سرکاری سطح پر ہیلتھ بینیفیٹس نہیں ملیں گے.

سابق امریکی صدر کے انتقال کر جانے کی صورت میں ان کی اہلیہ تادمِ مرگ سالانہ 20 ہزار ڈالرز پینشن لینے کی اہل ہوتی ہیں لیکن اس وقت کیا کیا جائے جب امریکی صدر خود ہی مستعفی ہو جائے؟ جیسا کہ 1974 میں صدر رچرڈ نکسن کے کیس میں ہوا اس وقت محکمہ انصاف نے فیصلہ کیا کہ نکسن اور ان کے بعد آنے والے جو بھی صدور مستعفی ہوں گے انہیں بھی صدارتی مدت ختم کر کے رخصت ہونے والے صدور کی طرح ہی پینشن اور مراعات دی جائیں گی.

البتہ مواخذے کے نتیجے میں صدارت سے ہٹائے جانے والے صدور پینشن کے اہل نہیں ہوتے صدارت کی مدت ختم ہونے کے بعد سابق امریکی صدور کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنی آبائی ریاستوں میں اپنے نام سے کوئی لائبریری یا میوزیم بناتے ہیں اس روایت کا آغاز امریکہ کے 32 ویں صدر صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے کیا تھا جنہوں نے اپنے دورِ صدارت کے دوران اپنے زیر استعمال اشیا اور دیگر ریکارڈ کو نیویارک میں واقع خود سے موسوم لائبریری اور میوزیم میں محفوظ کیا.

اس سے قبل یہ روایت تھی کہ سابق صدور وائٹ ہاﺅس سے اپنا سارا سامان اور دستاویزات گھروں کو لے جاتے تھے جن میں سے بیشتر کباڑی یا پھر ردی کی نذر ہو جاتا تھا لائبریری یا میوزیم کی تعمیر کے لیے سابق صدور فنڈ ریزنگ بھی کرتے رہے ہیں جبکہ سابق امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین تو خود اپنی لائبریری میں کام بھی کرتے رہے. 2013 تک صدارت کی مدت ختم ہونے کے بعد امریکی صدور کے ساتھ 10 سال تک سیکرٹ سروس کے اہل کار تعینات رہتے تھے تاہم 2012 میں سابق صدور کے تحفظ کا ایکٹ منظور ہونے کے بعد سیکرٹ سروس اہلکاروں کی تاحیات تعیناتی کی منظوری دی گئی سابق صدور کے بچوں کو 16 سال کی عمر تک سیکرٹ سروس فراہم کی جاتی ہے سابق صدر کی اہلیہ کو بھی سیکیورٹی دی جاتی ہے تاہم اگر وہ طلاق لے لیں اور دوسری شادی کرلیں تو یہ سہولت ختم کر دی جاتی ہے.

سابق امریکی صدور کو ایک دلچسپ پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو ان میں سے بیشتر کو پسند نہیں آتی وہ ہے ان کی ڈرائیونگ پر تاحیات پابندی سابق امریکی صدور کو سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر عام شاہراہوں پر گاڑی خود ڈرائیو کرنے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ یہ کام ان کی حفاظت پر مامور سیکریٹ سروس کے اہل کار کرتے ہیں. البتہ سابق صدور کو اپنی ذاتی پراپرٹی کی حدود میں گاڑی چلانے کی اجازت ہوتی ہے یہ فیصلہ سابق صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد کیا گیا تھا سابق امریکی صدور اپنے دورِ صدارت یا زندگی سے متعلق کتابیں لکھ کر بھی لاکھوں ڈالرز کما لیتے ہیں سابق صدور کی خود نوشتوں کے پبلشنگ رائٹس لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوتے ہیں.

سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنی کتاب ”مائی لائف“ کے عوض کتاب کے ناشر سے ڈیڑھ کروڑ ڈالرز ایڈوانس وصول کیا تھا جبکہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنی کتاب ”ڈیسیشن پوائنٹس“ کی 15 لاکھ کاپیوں کی فروخت سے 70 لاکھ ڈالرز کمائے تھے سابق صدر جمی کارٹر اب تک 14 کتابیں لکھ چکے ہیں جو ان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے. سابق صدور یونیورسٹیز یا دنیا بھر میں ہونے والی عالمی کانفرنسوں میں اپنی تقاریر کے ذریعے بھی کمائی کرتے ہیں وائٹ ہاﺅس چھوڑنے کے بعد 2001 میں بل کلنٹن نے تقاریر کی مد میں کروڑوں ڈالرز کمائے سابق صدور خود اپنے میل باکس تک جا کر اپنا پارسل یا ڈاک بھی وصول نہیں کر سکتے بلکہ پہلے ان کے نام موصول ہونے والی تمام ڈاک اور پارسلز ان کی رہائش گاہ سے دور قائم ایک مخصوص اسکریننگ پوائنٹس لے جائے جاتے ہیں جہاں ان کی اسکریننگ کے بعد ہی پارسل سابق صدر تک پہنچتا ہے.

اکتوبر 2018 میں سیکریٹ سروس نے انکشاف کیا تھا کہ سابق صدور براک اوباما، بل کلنٹن اور چند دیگر سیاست دانوں کو پارسل کے ذریعے پائپ بم بھجوائے گئے تھے جنہیں بروقت قبضے میں لے لیا گیا تھا ان بموں کی نشان دہی بھی اسکریننگ کے مراحل کے دوران ہی ہوگئی تھی. سابق امریکی صدور کو وائٹ ہاﺅس چھوڑنے کے 30 ماہ بعد تک کے لیے ذاتی دفتری اسٹاف کی تنخواہوں کی مد میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ ڈالرز ملتے ہیں30 ماہ کی یہ مدت پوری ہوجانے کے بعد دفتری عملے کی تنخواہوں کا بجٹ 90 ہزار ڈالر ہو جاتا ہے اور اگر عملے کی تنخواہ اس سے زیادہ ہو تو اضافی رقم سابق صدر کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتی ہے اسٹاف کی تنخواہ کے علاوہ سابق امریکی صدر کو ملک بھر میں کسی بھی مقام پر اپنا دفتر قائم کرنے اور دفتر میں استعمال کی ضروری اشیا کے لیے بھی رقم ملتی ہے.

علاوہ ازیں سابق صدور کو اندرون ملک اور بیرون ملک سفر کے لیے ٹکٹس اور قیام و طعام کی مد میں سالانہ 10 لاکھ ڈالرز جب کہ ان کی اہلیہ کو اس مد میں پانچ لاکھ ڈالرز تک خرچ کرنے کی سہولت ملتی ہے سابق صدور کی وفات کی صورت میں ان کی آخری رسومات پر خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں سابق صدور کی آخری رسومات کے دوران فلائی پاسٹ کے مظاہرے کے علاوہ توپوں کی سلامی اور پریڈ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے سابق صدور کی یہ آخری رسومات پانچ روز تک جاری رہ سکتی ہیں اور اس دوران ملک بھر میں قومی پرچم سرنگوں رہتا ہے.

وائٹ ہاﺅس سے جانے کے بعد سابق صدور اچھے دوستوں کی طرح آپس میں سماجی روابط رکھتے ہیں جب کہ موجودہ صدر بھی سابق صدر کو بعض اوقات وائٹ ہاﺅس میں دعوت دیتے رہتے ہیں سابق صدور رفاہی سرگرمیوں اور عالمی تنازعات کے خاتمے کے لیے تھنک ٹینکس اور رفاہی ادارے بھی بناتے ہیں سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ”کارٹر سینٹر“ کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا ان کی خدمات کے اعتراف میں سال 2002 میں انہیں امن کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا سابق امریکی صدور عام طور پر سیاست سے دور رہتے ہیں اور موجودہ صدر پر کھلے عام تنقید سے بھی گریز کرتے ہیں.