Live Updates

بلال اکبر کے تقرر پر بحث

DW ڈی ڈبلیو بدھ 20 جنوری 2021 20:00

بلال اکبر کے تقرر پر بحث

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جنوری 2021ء) سوشل میڈیا پر کئی صارفین اس تقرر پر پی ٹی آئی حکومت کو ہدف تنقید بنارہا ہیں۔ کچھ ناقدین اسے مشرق وسطی کے بدلتے ہوئے حالات سے جوڑ رہے ہیں اور کچھ کے خیال میں یہ تقرر سویلینز کے لئے سکڑتے اسپیس کا عکاس ہے۔

جنرل بلال اکبر ڈی جی رینجرز سندھ کے علاوہ فوج میں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

ان کا تقرر ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب سویلین عہدوں پر ریٹائرڈ اور حاضرسروس فوجی افسران کی تعیناتی پر پہلے ہی کئی حلقے شور مچارہے ہیں، جن کے خیال میں ملک کے کئی اہم انتظامی عہدوں پر فوجی افسران براجمان ہے۔

نا مناسب تقرر

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ تقرری نہ صرف سویلین بیورکریٹس کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ ایسی تعیناتی سے سول سروس کی کارکردگی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

پریسٹن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا خیال ہے کہ سفارتکای اور خارجہ امور کے لئے بہت سخت ٹریننگ اور وسیع تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔عمران خان کے دورے سے تعاون کے نئے باب کا آغاز ہوگا، چین

ڈاکٹر امان میمن مزید کہتے ہیں کہ، " سفارتکاری اور خارجہ امور میں کئی اصطلاحات ہوتی ہیں، جنہیں صیح طور پر سمجھنے کے لئے کافی وقت اور تجربہ چاہیے ہوتا ہے۔

بعض اوقات دو ممالک کے درمیان مشترکہ اعلامیہ کی صرف زبان کو کئی بار تبدیل کیا جاتا ہے اور اس میں مہارت کیریئر سفارت کار حاصل کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں انہیں نظر انداز کر کے فوجی افسران کو لگادیا جاتا ہے، جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔"

بدلتے حالات کا عکاس:

معروف تجزیہ نگار اورمصنفہ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ یہ تقرر مشرق وسطی کے بدلتے ہوئے حالات کا عکاس ہے۔

"ہمارے طاقت ور حلقے اور سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی سیاست دان یہ جرات نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ شیخ رشید جیسا آدمی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ڈرے گا کیونکہ اس کی ایک بھاری سیاسی قیمت ادا کرنی پڑے گی لیکن ملک کے کرتا دھرتا ایسا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ سکیورٹی نقطہ نظر سے فائدہ مند ہوگا۔

تو ایسے نازک موقع پر سفیر ایسا ہونا چاہیے، جو جی ایچ کیو کے قریب ہو۔"

بے جا تنقید

پاکستان کے سابق سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں تنقید کا ایک رواج چل نکلا ہے اور یہ کہ بلال اکبر کے تقرر پر تنقید بے جا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور یہ ضروری نہیں کہ سفارت کار پروفیشنل یا کیریئر آفسر ہی ہو۔

"امریکہ میں کئی سفیر اور اہم عہدیدار نان کیئریر رہے ہیں۔ تو نان کیریئر سفیر رکھنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں جنرل جہانگیر کرامت سمیت کئی سفیر فوج کے ریٹائرڈ لوگ رہے ہیں۔ ملک کے بہترین وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان بھی فوج سے تھے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ، ''ہماری پارلیمنٹ اور سویلین اداروں میں صورت حال زوال پزیر ہے۔

سعودی عرب کے ساتھ ہمارے خصوصی نوعیت کے تعلقات ہیں، جس میں سیکیورٹی ایک اہم نقطہ ہے۔ تو اس لحاظ سے بھی یہ تقرر بالکل درست ہے۔"سعودی ایرانی کشیدگی میں کمی کے لیے عمران خان تہران میں

فوجی افسران کی تقرری کا رجحان

معروف سیاسی مبصر اور روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے سابق ایگزیکیٹو ایڈیٹر ضیا الدین کا کہنا ہے کہ فوج سے سفیروں کی بھرتی ضیا کے دور میں شروع ہوئی۔ "پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں زیادہ تر کیریئر سفارت کار ہوتے تھے۔ ضیا کے دور میں خارجہ پالیسی آئی ایس آئی کے پاس چلی گئی کیونکہ خطے میں افغان جہاد چل رہا تھا۔ فوجیوں کا سول سروس میں کوٹا مختص ہوگیا اور پھر یہاں سے سفیر بھی لئے جانے لگے۔"

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات