صدر بائیڈن نے سفری پابندیوں کے خاتمے سمیت 17صدارتی حکم نامے جاری کردیئے

امریکا کی عالمی ادارہ صحت اور پیرس ماحولیاتی معاہدے میں واپسی‘زیادہ تر حکم نامے ٹرمپ کی متنازع پالیسوں کے خاتمے سے متعلق ہیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 21 جنوری 2021 12:05

صدر بائیڈن نے سفری پابندیوں کے خاتمے سمیت 17صدارتی حکم نامے جاری کردیئے
واشنگٹن (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 جنوری ۔2021ء) امریکہ کے 46 ویں صدر جو بائیڈن نے حلف برداری کے بعد صدارتی دفتر میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے فوری بعد انہوں نے 17 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط بھی کر دیے ہیں.

(جاری ہے)

ان صدارتی حکم ناموں میں متنازع سفری پابندیوں کا خاتمہ، پیرس ماحولیاتی معاہدے کی بحالی اور تمام وفاقی املاک میں لازمی ماسک پہننے کے بل پر دستخط کیے گئے ہیںجو بائیڈن کے زیادہ تر حکم نامے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں کو ختم کرنے سے متعلق ہیں جو بائیڈن حلف اٹھانے کے بعد اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں پہنچنے کے لیے انہوں نے سیاست کے میدان میں 50 برس کا وقت گزارا لیکن شاید انہوں نے کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ صدارت کے پہلے ہی دن انھیں متعدد بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا.

حلف برداری کی تقریب کے بعد صدر بائیڈن اوول آفس (صدارتی دفتر) پہنچے جہاں انہوں نے اپنی نشست سنبھالتے ہوئے صحافیوں کے سامنے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے. انہوں نے کہا کہ نئی ہدایات جاری کرنے کے لیے وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا اور ابھی یہ ابتدا ہے 78سالہ صدر بائیڈن نے جن ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں ان میں وفاقی ملازمین کے دفتری اوقات میں ماسک لازم کرنے کے علاوہ کورونا وائرس کے بحران پر قابو پانے سے متعلق ہدایات شامل ہیں.

جو بائیڈن نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق 2015 کے پیرس معاہدے میں واپسی اور عالمی ادارہ صحت میں دوبارہ شمولیت کے ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کیے ہیں یاد رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو پیرس معاہدے سے نکالنے کے علاوہ عالمی ادارہ? صحت کو بھی خیرباد کہہ دیا تھا. دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے صدر بائیڈن کے مذکورہ اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے انتونیو گوتریس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور کورونا بحران کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے وہ جو بائیڈن اور دیگر عالمی رہنماو?ں کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہیںگزشتہ برس اپریل میں کورونا وائرس کے دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے کے بعد صدر ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او کو امریکی فنڈنگ روک دی تھی امریکہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں اس تنظیم کو سب سے زیادہ فنڈنگ دینے والا ملک تھا.

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت چین کے زیر اثر ہے اور اس نے کرونا وائرس سے متعلق امریکہ کو درست حقائق سے آگاہ نہیں کیا بعدازاں صدر ٹرمپ نے امریکہ کو جولائی 2020 میں عالمی تنظیم سے الگ کر دیا تھا. صدر بائیڈن نے پیرس معاہدے میں بھی دوبارہ شمولیت اختیار کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں اس سے قبل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنا امریکہ کے مفاد میں ہے بدھ کو اوول آفس میں صدارتی فرمان پر دستخط کرتے ہوئے صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ آج جن ایگزیکٹو آرڈرز پر وہ دستخط کرنے جا رہے ہیں ان کی مدد سے کورونا بحران سے نمٹنے کے اقدامات کو تبدیل کرنے میں مدد ملے گی انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ اس انداز میں کریں گے جو پہلے کبھی نہیں کیا گیا اور نسلی مساوات کو بھی فروغ دیں گے بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم ان طبقات کا خیال رکھیں گے جو محرومیوں کا شکار ہیں.

جو بائیڈن کی پریس سیکرٹری جین پساکی نے اپنی پہلی نیوز بریفنگ کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ نئی انتظامیہ آزادی صحافت کا احترام کرتی ہے اور وہ اس کے لیے پرعزم ہے عالمی سطح پر امریکی ساکھ کی بحالی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر پساکی کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کی ترجیحات میں پہلے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا اور دنیا بھر میں اتحاد قائم کرنا ہے.

اس سے قبل صدر بائیڈن نے حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ صرف ا±ن کے صدر نہیں جنہوں نے انہیں ووٹ دیا بلکہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ تمام امریکیوں کے صدر ہیں بائیڈن کا کہنا تھا کہ قومی یکجہتی امریکہ کے لیے مستقبل کی راہ ہے اور ہم لازمی اس خانہ جنگی کا خاتمہ کریں گے جس نے امریکیوں کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیا ہے. انہوں نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کو مخالف کے طور پر نہیں بلکہ پڑوسی کی حیثیت سے دیکھ سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے سلوک اور اخلاق کے ساتھ پیش آ سکتے ہیں یاد رہے کہ امریکہ کے 46 ویں صدر جو بائیڈن امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں جو 36 برس تک سینیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اوروہ امریکا کے44ویں صدر بارک اوبامہ دو ادوار صدارت میں 2008سے2012تک نائب صدر رہ چکے ہیں.