سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات کی ریڈیوپاکستان کے نکالے گئے ملازمین کو بحال کرنے کی ہدایت

کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ریڈیو پاکستان کے اخراجات کو کم کرنے،عمارتوں کو موثر استعمال میں لانے اور تمام ملازمین کی تنخواہوں کی تفصیلات طلب کر لیں

جمعرات 21 جنوری 2021 23:11

کوئٹہ/اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 جنوری2021ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات نے ریڈیو پاکستان سے نکالے گئے کنٹریکٹ ملازمین کو میرٹ پر بحال کرنے اور خسارے کو دیگر ذرائع سے پورا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آئندہ آجلاس میں ریڈیو پاکستان کے اخراجات کو کم کرنے ریڈیو پاکستان کی عمارتوں کو موثر استعمال میں لانے اور تمام ملازمین کی تنخواہوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔

قائمہ کمیٹی نے پی ٹی وی،اے پی پی اور دیگر اداروں کے ملازمین کو اعلان کردہ اعزازیہ فوری ادا کرنے کی بھی ہدایت بھی کر دیں۔ جمعرات کو قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر مشاہد حسین سید کی جانب سے 18 ستمبر2020 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے معاملہ برائے پاکستان میں پابندی کے باوجود انڈین سپورٹس چینل کی نشریات چلانے کے علاوہ ریڈیو پاکستان(پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن)کے کنٹریکٹ ملازمین کو نکالے جانے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کو چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ وزارت داخلہ کو سیکورٹی کلیئرنس کیلئے تین مرتبہ لکھا ہے مگرجواب نہیں آیا ہے۔کلیئرنس کے بغیر کوئی لائسنس جاری نہیں کیا جاتا۔اس کمپنی کی پہلے ہی تین دفعہ کلیئرنس ہو چکی ہے اور اس کو لینڈنگ رائٹس بھی حاصل ہیں۔اس چینل کی کمپنی لندن بیسڈ ہے۔ شکایت آنے پر دوبارہ کلیئرنس کیلئے وزارت داخلہ کو بھیجا ہے اور تین دفعہ کمیٹی کا نوٹس لینے کے بارے بھی آگاہ کیا ہے ابھی تک جواب نہیں ملا۔

وزارت داخلہ سے سیکورٹی کلیرنس آنے پر کمیٹی کو آگاہ کر دیا جائے گا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس معاملے کو کافی عرصہ ہو چکا ہے اس طرح کے حساس معاملات کو جلد سے جلد واضح کرنا چاہیے۔ قائمہ کمیٹی نے معاملہ ختم کرتے ہوئے 5 فروری تک وزارتِ داخلہ سے سکیورٹی کلیئرنس حاصل کرنے کی ہدایت کر دی۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ ٹی وی چینلز کو سیاستدانوں کی آواز ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنا موقف بیان کر سکیں اور ٹی وی چینلز پر حقائق پر مبنی چیزیں نشر کی جائیں۔

بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ آج کل کے ایشوز کو واضح کرنا چاہیے کہ ملک کے معاملات کیا ہیں۔ پاکستان کی 70 فیصد آبادی 35 سال سے کم ہے۔ لوگوں میں ابہام پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اشتہارات کی پالیسی بنانے کا بھی کمیٹی نے کہا تھا۔ پالیسی بننے سے لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع ملیں گے۔

وزارت اطلاعات ونشریات اشتہارات کی پالیسی جلد ازجلد مرتب کرے اس کی گروتھ بہت ضروری ہے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ریڈیوپاکستان سے نکالے گئے کنٹریکٹ ملازمین نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ بیماری کی حالت میں بھی ملک وقوم کے لیے کام کیا ہے۔. بہترین کام پر تعریفی خطوط سے ہمیں نوازا گیا ہے اور منفی 20 ڈگری سے لے کر48 ڈگری تک کے علاقوں میں کنٹریکٹ ملازمین نے کام کر کے دکھا یا ہے۔

مگر افسوس کی بات ہے کہ بہترین کام کرنے کے باوجود بھی ہمیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔ 120 لوگوں نے حکم امتناعی حاصل کیا ہے۔کنٹریکٹ ملازمین کی تنخواہیں 17 ہزار سی20 ہزار تک ہیں۔ برطرف ملازمین نے کہا کہ ہم صبح5 بجے بھی آفس آتے ہیں لیکن ہمیں کوئی گاڑی نہیں پک کرتی ہے نہ ہی کنٹریکٹ ملازمین کو کوئی میڈیکل الانس ملتا ہے۔ ڈی جی ریڈیو نے کمیٹی کو بتایا کہ 749 کنٹریکٹ ملازمین میں سے 255 ملازمین ریڈیو پاکستان ملازمین کے رشتہ دار تھے۔

ادارے میں غیر ضروری بھرتی کی گئی تھی کنٹریکٹ 89 دنوں کے بعد ریوائز کیا جاتا تھا۔ سالانہ 1 ارب روپے کا ادارے کو خسارہ ہے اور کنٹریکٹ ملازمین پر فی ماہ 15 ملین روپے خرچہ آتا ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ادارے کے مستقل ملازمین کی تعداد 2323 ہے اور پینشنر کی تعداد 4070 ہے۔ کنٹریکٹ ملازمین کی تعداد749 ہے۔ادارے کو 4373 ملین روپے گرانٹ ملتی ہے جبکہ اخراجات5601ملین روپے ہیں۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ انسانی پہلو سب سے اہم ہے اورکنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیوں نہیں کیا گیا۔بہتریہی ہے کہ ہائیرنگ کا طریقہ کار کمیٹی کو فراہم کیا جائے اور میرٹ پر لوگوں کو بحال کیا جائے۔ اب وقت آچکا ہے کہ سفارشی کلچر کو ختم ہونا چاہے۔ ادارہ آئندہ اجلاس میں موثر منصوبہ بندی کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کرے کہ اخراجات کو کس طرح کم، آمدن میں اضافہ، ہائیرنگ کے طریقہ کار کو مزید موثر کیا جاسکتا ہے اور میرٹ پر کنٹریکٹ ملازمین کو بحال کیاجائے۔

ادارے کے پاس اہم اوربڑی عمارتیں ہیں ان کو استعمال میں لا کر آمدن بڑھائی جا سکتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کو ادارہ اپنی مارکیٹنگ پالیسی فراہم کرے اور آمدن کیلئے کرکٹ کو بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ادارے اپنے تمام ملازمین کی تنخواہوں کی تفصیلات بھی کمیٹی کو فراہم کرے۔ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز سجاد حسین طوری، سید محمد صابر شاہ، پرویز رشید، روبینہ خالد، انجینئر رخسانہ زبیری اور مشاہد حسین سید کے علاوہ سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات، چیئرمین پیمرا، ڈی جی پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن و دیگر حکام کے علاوہ برطرف ملازمین کے وفد نے بھی کمیٹی اجلاس میں شرکت کی 21-01-21/--243 #h# پ*بلوچستان کے تمام معاملات اسٹیبلشمنٹ چلارہی ہے، سرداراخترجان مینگل ۔

لاپتہ افراد کے معاملے پرجب بھی وزیراعظم عمران خان سے بات ہوئی وہ مجھے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف بھیج دیتے تھے 1947ء سے ہرآنے والے حکمران نے بلوچستان کے وسائل کو لوٹا،مقامی باشندوں کومسلمان تو کیا انسان تک نہیں سمجھا جاتا،سربراہ بی این پی کا انٹرویو #/h# ٖ'کوئٹہ(آن لائن)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ بلوچستان ہمیشہ سیاسی مقاصد کے حصول اور وسائل کے لوٹ مار کے طور پر استعمال کیاگیاہے ،بلوچستان نیشنل پارٹی کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے باپ پارٹی بنائی گئی بلوچستان عوامی پارٹی کا نام پہلے پاکستان عوامی پارٹی تجویز کیا گیا لیکن پھر اس کو بنانے والوں کو احساس ہوا کہ یہ تو پاپ کہلائی گی اس لئے پھر اسکو باپ بنا دیابلوچستان میں اس پارٹی کو ووٹ فرشتوں نے دیا اور الیکشن میں دھاندلی سے جتوایاصوبوں کی سطح پر پارٹیاںقوم پرستانہ ہوتی ہے لیکن بی اے پی میں تو قوم پرستی کی آدا بھی نہیں ہے ،بلوچستان کے تمام معاملات اسٹیبلشمنٹ چلارہی ہے حتی کہ یہاں کی حکومت سازی کااختیار بھی وفاق کے پاس نہیں ،لاپتہ افراد کے معاملے پر جب بھی میری ملاقات عمران خان اور ان کے منسٹرز سے ہوتی تھی تو وہ مجھے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے طرف بھیج دیتے تھے ہم عمران خان کی حکومت میں اسلئے شامل ہوئے کیونکہ ہم لاپتہ افراد کی بازیابی چاہتے تھے۔

میں نے 5128 لاپتہ لوگوں کی لسٹ پارلیمنٹ میں جمع کروائی۔ ان میں سے 450 کے قریب بازیاب ہوئے لیکن 1500 اور اٹھائے گئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اسلئے ہم نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی۔ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز سائوتھ ایشاء پریس کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔ سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ بلوچستان کے مسئلے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ایک زمانہ میں صرف پی ٹی وی یا محدود اخبارات کے ذریعے خبریں ملتی تھی لیکن جدید دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے بلوچستان کے حالات سے سب باخبر ہے ،بلوچستان کی بدحالی میں نہ صرف معاشی صورتحال بلکہ سیاسی حالات بھی شامل ہیں اوریہ سلسلہ آج کا نہیں بلکہ 1947سے چلا آرہاہے ہر آنے والے حکمران نے بلوچستان کو اہمیت دینے کی بجائے اپنے مقاصد حاصل کی مقاصد کا مطلب بلوچستان کے وسائل لوٹے اور استعمال کئے لیکن مقامی باشندہ کو مسلمان اپنی جگہ لیکن انسان بھی نہیں سمجھا گیا یہ ایک عرصے سے لاوا پک رہاہے اورلاوا اس حد تک پہنچ چکاہے کہ سکولوں میں پاکستان کا ترانا بھی لوگ بجانا پسند نہیں کرتے تھے موجودہ حکومت ہو یا اس سے پہلے کی حکومت بارہابلوچستان کے مسئلوں پر توجہ دلانے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں چاہے جمہوری حکومت ہو یا آمروں کی حکومت ان کی جانب سے بلوچستان کو نظرانداز کیاگیاہے سیاست کا رواج ہے کہ ہر کوئی اپنے مقصد کیلئے سیٹوں کواستعمال کرتاہے ہم نے حکومت سے بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے معاہدہ کیا جن میں پہلا مطالبہ لاپتہ افراد، افغان مہاجرین کی وطن واپسی ،معدنیات کو بلوچستان کے حوالے کرنا، گوادر میں مقامی لوگوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے قانون سازی سمیت دیگر مسائل حکومت کے سامنے رکھے ، ہم نے اس وقت واضح کیاتھا کہ چھ نکات سے بلوچستان کے مسائل کا حل ایک راستہ ہے اور مختلف اوقات میں ہم وزیراعظم سے لیکر کمیٹی ممبران تک کو معاہدے کی یقین دہانی کراتے رہے ،انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی میں پہلی لسٹ جو مہیا کی گئی تھی میں 5ہزار 128کے قریب لاپتہ افراد لوگوں کی تفصیل تھی جن میں سے ڈھائی سال کے عرصے میں ساڑھے چار سو لوگ بازیاب ہوگئے تھے لیکن ان ڈھائی سالوں میں 15کے قریب اور بھی لوگ لاپتہ ہوگئے بازیابی کا سلسلہ بند لیکن اٹھانے کا سلسلہ جاری تھا ،حکمرانوں کی طرف سے مثبت رسپانس نہیں ملا ٹرخانے کیلئے کبھی دو تو کبھی چار لوگ چھوڑ دئیے جاتے تھے جہاں ہمارے ووٹوں کی ضرورت تھی تو پھر لوگوں کو چھوڑ دیاجاتا تھا ،الیکشن کمپین میں کسی نے ہم سے سڑکوں اور ترقی کامطالبہ نہیں کیا ہر علاقہ انڈر ڈویلپ ہے لیکن لوگ اپنے بچوں کی واپسی کامطالبہ کرتے تھے اس لئے ہم نے یہ مطالبہ سر فہرست رکھا ،حکومت کی جانب سے ٹرخانے پر ہم نے حکومت کو خیرا ٓباد کہہ دیا،سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین مسئلہ ہے عمران خان کو چھوٹے معاملات میں اختیارات حاصل نہیں ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف ڈائیورٹ کرتے اور کہتے کہ آئیں ہم آپ کی آرمی چیف ،ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کراتے ہیں اور یہ مسئلہ حل کرتے ہیں ،ان کے باڈی لینگویج اور ان کے عمل سے ثابت ہوگیاتھاکہ وہ اختیارات کے مالک تھے اور نہ ان سے پہلے بلوچستان کے معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی کو اختیار دیاگیاہے ،چاہے وہ لاپتہ افراد ہو سی پیک ہو یا کوئی اور مسئلہ ،بلوچستان میں حکومت سازی کااختیار بھی وفاق کوحاصل نہیں بلکہ اسیٹبلشمنٹ لیتی ہے ،انہوں نے کہاکہ سیاسی پارٹیاں دنوں میں نہیں بنتی بلکہ طویل جدوجہد کے بعد جا کر بنتی ہے اور پھر الیکشن کے دوران منشور عوام میں لے جایاجاتاہے ،باپ پارٹی الیکشن سے دوتین ماہ قبل بنی اور بناتے وقت فیصلہ بھی نہیں ہوپارہا تھاکہ اس کانام کیارکھاجائے بلوچستان عوامی پارٹی جو نام رکھاجاتاہے وہ قوم ہمیشہ قوم پرست پارٹیاں ہوتی ہے اس کی کوئی آدا بھی قوم پرستانہ نہیں لگتی یہ جلد بازی میں نام رکھاگیا ہے اصل میں اس کانام پاکستان عوامی پارٹی رکھاجارہاتھا نام تجویز کیا گیا تھا لیکن پھر انہیں یاد آیا کہ یہ تو پاپ بن جائے گااورپھر پاپ سے ڈائیورٹ کرکے باپ بنایادیااب پتہ نہیں کس کے باپ کا یہ پاپ ہے یہ بنانے والے لوگ جانتے ہیں ،میں جب 25سال کاتھا اور آج میں65کا ہوں تو اب تک ہم اپنی پارٹی کو مکمل نہیں بنا پارہے تو یہ کوئی جادو کی چھڑی تھی شاید یہ پہلی پارٹی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی پارٹیاں بنتی رہی ہیں ، بلوچستان نیشنل پارٹی کی اکثریت کو ختم کرنے کیلئے باپ پارٹی بنائی گئی ہے انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی میں مخصوص نشست کے ساتھ ہماری 4نشستیں ہیں قومی اسمبلی کی ایک نشست جس پارٹی کو جتوائی گئی اس ممبر سے الیکشن کمشنرنے سوال کیاکہ آپ نے ووٹ کاسٹ کیا تو انہوں نے کہانہیں پوچھا کہ کیوں نہیں تو انہوں نے کہاکہ حالات خراب تھے اب جب حالات خراب تھے اور اسی امیدوار کو اسی پولنگ سے 12سو ووٹ ملتے ہیں شاید فرشتوں نے ہی ان کیلئے ووٹ ڈالے ہوںگے جہاں امیدوار خود نہیں جاسکتا تھا یہ پارٹی قومی اسمبلی ،سینیٹ اور صوبائی سطح پر مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کیاجاتاہے