پنجاب حکومت کو اپنی اس تعلیم دشمن پالیسی کو فی الفور ختم کرنا چاہیی:جاوید قصوری

جمعرات 21 جنوری 2021 23:20

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 جنوری2021ء) پنجاب حکومت کا میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں آبادی کے تناسب سے نشستوں میں اضافے کی بجائے 267 نشستیں کم کرنے کافیصلہ انتہائی افسوس ناک اور قابلِ مذمت ہے، گورنمنٹ کے میڈیکل کالجز میں گذشتہ کئی سالوں سی3400 نشستیں مختص ہیں جبکہ پنجاب کی آبادی میں کروڑوں افراد اور لاکھوں طلبہ وطالبات کا اضافہ ہوا ہے لیکن حکومتِ پنجاب اور متعلقہ اداروں نے پرائیویٹ سیکٹرمیں میڈیکل کالجزمافیا کو نوازنے کیلئے نشستوں میں اضافے کی بجائے 267 نشستیں کم کرنے کا اعلان کرکے طلبہ وطالبات کوسخت مایوس کیا ھے،۔

ان خیا لات کا اظہار امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے گزشتہ روز صوبائی دفتر منصورہ میں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر عمران ظفر اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات محمد فاروق چوہان کے ہمراہ پریس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوے کیا۔

(جاری ہے)

انہو ں نے کہا کہ پنجاب کے گورنمنٹ میڈیکل کالجز میں سیٹیں کم کرنے کے حکومتی فیصلے کی شدید مت کرتے ہیں۔

پرائیویٹ میڈیکل کالجزمیں سالانہ 20 لاکھ روپے کے اخراجات اورپھر ڈگری کے حصول کے لئے ایک کروڑ روپے مہیا کرناسفید پوش والدین کے لئے کسی طرح بھی ممکن نہیں ھے۔اس صورتحال میں جبکہ دیگر صوبے میڈیکل کی نشستوں میں اضافہ کررہے ہیںلیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پنجاب میں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے، پنجاب حکومت کے اس فیصلے سے والدین اورطلبہ وطالبات میں شدید بے چینی پائی جاتی ھے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان احمد بُزدار اس صورت حال کا فوری نوٹس لیں اور پنجاب میں نشستوں کی تعداد کم ازکم 4000 کی جائے تاکہ ذہین طلبہ، طالبات اپنے تعلیمی ذوق کے مطابق میڈیکل اینڈڈینٹل کالجز میں داخلہ لیکر تعلیم حاصل کرسکیں۔

اگر یہ جائز مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ پنجاب کی آبادی 12کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اسی تناسب سے گورنمنٹ میڈیکل کالجز میں نشستوں کااضافہ بھی ہونا چاہیے تاکہ غریب اور متوسط طبقے کے طلبا میڈیکل کے شعبے میں تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملکی معیشت اور دیگر شعبوں کی طرح تعلیم جیسا حساس اور اہم شعبہ بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرپنجاب کے غریب اور متوسط طلبا پر تعلیم کے دروازے بند کرکے تعلیمی شعبے کو پرائیویٹائز کرنے کی گہری سازش کی جارہی ہے۔ پہلے ہی پرائیویٹ اداروں کی بھر مار ہے۔ اب میڈیکل کے طلبا پر گورنمنٹ کے کالجز میں نشستیں کم کرنا حکومت کی کھلم کھلا تعلیم دشمنی ہے۔ پنجاب حکومت کو اپنی اس تعلیم دشمن پالیسی کو فی الفور ختم کرنا چاہیے۔

یہ پنجاب کے عوام کے ساتھ سراسر نا انصافی اور زیادتی ہے۔ پنجاب کے عوام حکومت کے اس ناروا فیصلے کو کبھی تسلیم نہیں کریںگے۔ جماعت اسلامی پنجاب وسطی اس کے خلاف احتجاج کو ہر سطح پر منظم کرے گی اور حکومت کو مجبور کرے گی کہ وہ سرکاری میڈیکل کالجزمیں نشستوں کی کمی کے اس فیصلے کو واپس لے اور پنجاب کی آبادی کے تناسب سے ان نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔

کسی بھی معاشرے میں تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرپنجاب کے عوام اپنے اس بنیادی اور آئینی حق کو غصب نہیں ہونے دیں گے۔تعلیم یہ انسان میں شعور پیدا کرتی ہے اس کی بدولت ہی انسان اچھے بُرے کی تمیز کرسکتا ہے یعنی تعلیم ہی بنیادی مسائل کا حل ہے۔ مگر ہمارا تعلیمی نظام ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کررہا ہے۔

ظاہری طور پر پاکستان میں دو تعلیمی نظام ہیں۔1940میں قرار داد پاکستان منظور ہو نے کے فوری بعدقائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی ہدایت پر ماہرین کی ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کے ذمے یہ کام تھا کہ نوزائیدہ ریاست پاکستان کیلئے تعلیم کا ایک ایسا نظام وضع کر ے جس کے ذمے تین کام تھے (1)نظام تعلیم (2)نظام معیشت (3)نظام سیاست ۔دنیا کے وہ ملک جن کی معیشت تباہ ہوچکی ہے ان کا دفاعی بجٹ تو اربوں روپے کا ہے، مگر تعلیم کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے، یہی ان کی تباہی کا باعث ہے۔

اگر کوئی بھی ملک چاہتا ہے کہ وہ ترقی کرے تو ان کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیمی اداروں کو مضبوط کریں۔سرکاری سطح پر میڈیکل ، انجینئرنگ اور دیگر پروفیشنل اداروں کی تعدا د میں اضافہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پر آج تک جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ صرف علم کی بدولت کی ہے۔ صرف علم حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ اس کا اطلاق بھی ضروری ہے۔تعلیمی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 21فیصد پرائمری سکولز ایسے ہیں جن کو صرف ایک استاد کی مدد سے چلایا جا رہا ہے اور 14فیصد ایسے ہیں جو صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔

40فیصد ایسے سکولز ہیں جہاں بجلی نہیں ہے، 29فیصد سکولوں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں، 43 فیصد اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور 7 فیصد اسکول ایسے ہیں جن کے پاس اسکول کے لیے کوئی عمارت ہی نہیں۔ماہرینِ تعلیم کے مطابق پاکستان میں شرحِ خوانداگی کا 35 فیصد ہونا ملک کی معاشی ترقی کے حصول کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ محمد جاوید قصوری نے کہا کہ پاکستان میں تعلیمی شعبے کی صورتِ حال غیر تسلی بخش رہی ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو کروڑ 20 لاکھ بچے اب بھی اسکول نہیں جاتے۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 الف کے تحت ریاست پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم دینے کی پابند ہے۔سرکاری فنڈز ہونے کے باوجود تعلیمی عمارات پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ آج بھی کئی پسماندہ علاقوں میں بچے کلاس رومز کی بجائے کھلے میدانوں میں کلاسز لینے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف ہمارا تعلیمی نظام بہت خراب ہے دوسری طرف قابل اساتذہ کی بے حد کمی ہے۔ اساتذہ بچوں کو فرض سمجھ کر نہیں بلکہ قرض سمجھ کر پڑھاتے ہیں۔ اساتذہ بچوں کی ذہنی نشوؤنما کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے تعلیمی نظام میں موجود خرابیاں آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بھی دائوپر لگا سکتی ہیں