علی زیدی کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور اس وقت وہ نارمل صورتحال میں نہیں،سعید غنی

نیب اس وقت حکومت کا آلہء کار بنا ہوا ہے اور جو کوئی اس حکومت کو ٹف ٹائم دیگا وہ اس کے خلاف ریفرنس بنارہے ہیں، صوبائی وزیر تعلیم وزیر اعلیٰ سندھ سے پوچھنے کا دعویٰ کرنے والے اس مہا چول وزیر کو پہلے اپنی اس کابینہ ، وزیر اعظم سے چینی، گندم، ادویات، پیٹرول اور ایل این جی گیس پر نااہلی کے باعث اس ملک کے 22 کروڑ عوام کی جیبوں پر ڈالے گئے اربوں روپے پر پوچھنا چاہیے،کراچی پریس کلب کے نومنتخب عہدیداران کو مبارکباد اور پھولوں کا گلدشتہ دینے کے دوران بات چیت

پیر 25 جنوری 2021 19:57

علی زیدی کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور اس وقت وہ نارمل صورتحال میں نہیں،سعید ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 جنوری2021ء) وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ علی زیدی کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور اس وقت وہ نارمل صورتحال میں نہیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سے پوچھنے کا دعویٰ کرنے والے اس مہا چول وزیر کو پہلے اپنی اس کابینہ اور وزیر اعظم سے چینی، گندم، ادویات، پیٹرول اور ایل این جی گیس پر نااہلی کے باعث اس ملک کے 22 کروڑ عوام کی جیبوں پر ڈالے گئے اربوں روپے پر پوچھنا چاہیے۔

نیب اس وقت حکومت کا آلہء کار بنا ہوا ہے اور جو کوئی اس حکومت کو ٹف ٹائم دیگا وہ اس کے خلاف ریفرنس بنارہے ہیں۔ اسٹیل ملز آج بھی سندھ حکومت لینا چاہتی ہے اور اسے چلانا چاہتی ہے، موجودہ نااہل اور نالائق حکومت کی اس دور میں 42 ارب روپے کا خسارہ اسٹیل ملز کی مد میں ہوا ہے پہلے وہ ان کا حساب دیں۔

(جاری ہے)

گیس کے کنکشن منقطع کرکے اسٹیل ملز کو تباہ کرنے والوں سے پوچھ گچھ کی بجائے اس کی سزا غریب مزدوروں کو اسٹیل ملز سے نکال کر دی جارہی ہے۔

کراچی پریس کلب جمہوریت کی جہدوجہد میں ملک بھر کی پریس کلبوں کے مقابلے ہمیشہ آگے رہا ہے اور ان کی اس ملک کی جمہوریت کے لئے قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ میرا آج پریس کلب آنے کا مقصد نو منتخب عہدیداران کو مبارکباد پیش کرنا تھا کیونکہ کراچی پریس کلب نے جہاں ملکی جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں وہاں پریس کلب میں بھی جمہوری روایات کو قائم رکھتے ہوئے صاف و شفاف انتخابات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز کراچی پریس کلب کے نومنتخب عہدیداران کو مبارکباد اور پھولوں کا گلدشتہ دینے کے دوران بات چیت اور بعد ازاں میٹ دی پریس سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی، جنرل سیکرٹری رضوان بھٹی، تمام منتخب عہدیداران، ارکان پریس کلب بھی موجود تھے۔ جبکہ صوبائی وزیر کے ہمراہ پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے جنرل سیکرٹری و سابق صوبائی وزیر محمد جاوید ناگوری، سابق رکن قومی اسمبلی علی راشد اور دیگر بھی موجود تھے۔

قبل ازیں صوبائی وزیر نے نومنتخب صدر، جنرل سیکرٹری اور دیگر عہدیداران کو مبارکباد پیش کی اور انہیں پھولوں کا گلدشتہ پیش کیا گیا۔ اس موقع پر کراچی پریس کلب کی جانب سے صوبائی وزیر کو سندھ کی روائتی اجرک کا تحفہ پیش کیا گیا۔ بعد ازاں میٹ دی پریس سے خطاب اور صحافیوں کے سوالات کے جواب میں وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ کراچی پریس کلب ایک تاریخ رکھتی ہے اور جتنی قربانیاں ہمارے صحافی دوستوں نے اس ملک میں دی ہیں اس میں کراچی پریس کلب کی قربانیاں لازوال ہیں۔

انہوںنے کہا کہ آمرانہ دور حکومت میں کراچی پریس کلب اور اس کے صحافیوںنے اس ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے جو جہدوجہد کی ہیں وہ لازوال ہیں۔ انہوںنے کہا کہ میں جب ایک مزدور لیڈر تھا اس وقت بھی پریس کلب آتا رہا، پھر میں یوسی ناظم بنا، سینیٹر بنا اور وزیر بنا اس دوران بھی میں کراچی پریس کلب آتا رہا اور انشاء اللہ آئندہ وزیر نہ بھی رہا تو یہ سلسلہ جاری رکھوں گا۔

اس موقع پر صحافیوں کی جانب سے سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ پیپلز پارٹی کو انویسٹی گیشن جماعت نہیں ہے اور ہمیں جو دستاویزات اور شواہد ملتے ہیں ہم اس کی بناء پر لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ چند روز قبل بھی پارٹی میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے اور کچھ لانڈھی اور کورنگی کے ذمہ داران نے شمولیت اختیار کی ہے اور اس حوالے سے جو دستاویزات ہمیں ملے ہیں اس کے تحت مذکورہ شخص کو 5 سے 6 سال قبل رینجر نے اٹھایا تھا تاہم انکوائری کرکے اس کو رہا کردیا تھا۔

انہوںنے کہا کہ اگر اس حوالے سے کچھ باتیں آج منظر عام پر آرہی ہیں تو ہم اس پر بھی ضرور دیکھیں گے۔ تعلیمی اداروں کے حوالے سے سوال پر انہوںنے کہا کہ یکم فروری سے تمام باقی مانندہ تعلیمی ادارے کھل جائیں گے۔ علی زیدی کے حوالے سے مختلف سوالات کے جوابات میں وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ میں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ موجودہ نالائق، نااہل اور سلیکٹیڈ حکومت کے وزراء چول ہیں اور اس میں یہ صاحب مہا چول ہیں۔

انہوںنے کہا کہ 16 جنوری کے اجلاس کی ہم نے کوئی خفیہ ریکارڈنگ نہیں کی بلکہ اس اجلاس میں کئی شرکاء ویڈیو لنک کے ذریعے رابطے میں ہوتے ہیں اور یہ تمام ریکارڈ ہوتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ اگر اس مہا چول کا اصلی چہرہ عوام کے سامنے لانا پڑا تو ضرور ہم یہ ریکارڈنگ بھی دکھا دیں گے۔ انہوںنے کہا کہ میرے نزدیک علی زیدی کسی ذہنی دبائو کا شکار ہیں، اب شاید ان کو وفاقی کابینہ سے نکالنے کا دبائو ہے یا سابق چیئرمین کے پی ٹی کے حوالے سے کچھ ذہنی دبائو ہے۔

انہوںنے کہا کہ یہ بات تو کنفرم ہے کہ وہ اس وقت نارمل صورتحال میں نہیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ سے علی زیدی کی جانب سے پوچھوں گا کہ سوال پر سعید غنی نے کہا کہ وہ وزیر اعلیٰ سندھ سے پوچھنے سے قبل پہلے اپنی اس کابینہ جس کا وہ حصہ ہیں اور اس وزیر اعظم سے ملک میں چینی اسکینڈل، گندم اسکینڈ، ادویات، پیٹرول، ایل این جی اور گیس اسکینڈل میں تمام رپورٹس کے منظر عام پر آنے اور ان میں ان کے وزیر اعظم سمیت کابینہ کے ارکان اور ان کے اے ٹی ایم کے ملوث ہونے کے باعث اس ملک کے 22 کروڑ عوام پر اربوں روپے کے بوجھ کا پوچھیں۔

انہوںنے کہا کہ اس وقت وفاقی کابینہ چول وزراء اور ترجمانوں سے بھری ہوئی ہے اور جب وہ اپنی چول مار کر پھنس جاتے ہیں تو پھر اپنی جاہلانہ حرکتوں پر اتر آتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی گرفتاری کی صورت میں ان کی تبدیلی کے سوال پر انہوںنے کہا کہ یہ صرف باتیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ہی رہیں گے۔ انہوںنے کہا کہ ہم تو پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے اور یہ حکومت کا آلء کار بنی ہوئی ہے۔

انہوںنے کہا کہ اس حکومت کو جو بھی ٹف ٹائم دے گا نیب اس کے خلاف ریفرنس بنائے گی۔ سعید غنی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے سندھ کے حقوق کی بات کی ہے، اس نے اس صوبے کے این ایف سی شئیر کی بات کی ہے، اس نے کراچی میں ترقیاتی کاموں کا ریکارڈ کام کروا کر وفاقی حکومت کا اصل چہرہ اس صوبے اور ملک کے عوام کو دکھایا ہے، انہوںنے اس صوبے کے گیس پر آئینی مطالبہ کیا ہے اور ان سب کی پاداش میں ان پر نیب کا ریفرنس بنایا گیا ہے تو ایسے ریفرنس ہمارے خلاف بھی بھلے وہ بنائے کیونکہ ہم سب یہ باتیں کرتے رہیں گے۔

سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کے سوال پر انہوںنے کہا کہ پی ٹی آئی میں جو زیادہ بدتمیزی کرتا ہے اس کو وزیر اعظم شیرو کا لقب دے کر شاباشی دیتا ہے، سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے فردوس نقوی نے بدتمیزی کی بہت کوشش کی لیکن وہ حلیم عادل سے نہیں پہنچ سکے تو ان کو مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا اور اب ان سے بڑا بدتمیز ان کی جگہ پر آیا ہے۔ #