نیا گلوبل کلائمیٹ انڈکس: مسلسل متاثرہ ممالک میں پاکستان بھی

DW ڈی ڈبلیو پیر 25 جنوری 2021 19:00

نیا گلوبل کلائمیٹ انڈکس: مسلسل متاثرہ ممالک میں پاکستان بھی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2021ء) اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کئی طرح کی قدرتی آفات کی وجہ بننے والے انتہائی نوعیت کے موسمی حالات زمین پر انسانی آبادی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ تاہم اس بارے میں نئے اعداد و شمار بہت حیران کن بھی ہیں اور پریشان کن بھی۔

کورونا سے پاکستان سمیت افریقی ملکوں کے اہم مسائل نظر انداز

اس دستاویز کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑی قدرتی آفات، مثلاﹰ طوفانوں، شدید گرمی کی لہروں اور سیلابوں سے سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔

ایسی آفات کے باعث گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تقریباﹰ چار لاکھ اسی ہزار انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔

ڈھائی ہزار بلین ڈالر سے زائد کے نقصانات

عالمی سطح پر تحفظ ماحول کے لیے کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد سے متعلق ایک ماحولیاتی سمٹ اسی مہینے منعقد کی گئی۔

(جاری ہے)

نیدرلینڈز کی میزبانی میں اس کانفرنس کا انعقاد کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پیش نظر آن لائن کیا گیا۔

پاکستان نے ماحولیاتی ہدف 10 سال پہلے ہی حاصل کر لیا

اس کانفرنس میں جرمنی کے ایک تھنک ٹینک 'جرمن واچ‘ کی طرف سے بڑے محتاط جائزے کے بعد تیار کردہ جو ڈیٹا پیش کیا گیا، اس کے مطابق گزشتہ 20 برسوں کے دوران ایسی قدرتی آفات کے نتیجے میں صرف تقریباﹰ نصف ملین انسان ہی ہلاک نہیں ہوئے بلکہ ان قدرتی آفات کے باعث عالمی معیشت کو رواں صدی کے دوران اب تک 2.56 ٹریلین ڈالر کا نقصان بھی ہو چکا ہے۔

یہ رقم 2560 بلین ڈالرکے برابر بنتی ہے۔

گیارہ ہزار سے زائد قدرتی آفات

جرمن واچ کے تجزیے کے مطابق 2000ء سے لے کر اب تک دنیا میں 11 ہزار سے زائد ایسی قدرتی آفات اور تباہ کن واقعات پیش آ چکے ہیں، جن کا سبب انتہائی نوعیت کے موسمیاتی حالات بنے۔

ماحولیاتی تبدیلیاں، پاکستان دنیا کا پانچواں متاثرہ ترین ملک

زمین پر انسانی آبادی کے لیے براہ راست بڑا خطرہ بنی رہنے والی ان قدرتی آفات سے متعلق یہ بات بھی تشویش ناک ہے کہ اس عرصے کے دوران پورٹو ریکو، میانمار اور ہیٹی ایسے ممالک تھے، جنہیں ان آفات نے انتہائی حد تک اور بار بار متاثر کیا۔

پاکستان کی اقتصادی ترقی میں ماحولیاتی تبدیلیاں ایک بڑا چیلنج

امیر ریاستوں کی غریب ممالک کے لیے وعدہ کردہ امداد کہاں ہے؟

2015ء میں پیرس میں طے پانے والے ماحولیاتی معاہدے کے تحت دنیا کے امیر ممالک کو غریب اور ترقی پذیر ریاستوں کو سالانہ 100 بلین ڈالر مہیا کرنا تھے، تاکہ وہ اپنے ہاں درجہ حرارت میں اضافے کو روک سکیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کی روک تھام کر سکیں۔

مگر ماہرین کی طرف سے کی گئی تحقیق سے ثابت یہ ہوا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو اس مد میں جو رقوم مہیا کی جا رہی ہیں، ان کا حجم وعدہ کردہ مجموعی رقوم کی مالیت کا انتہائی چھوٹا سا حصہ بنتا ہے۔

پاکستان میں بڑھتی گرمی، مستقبل میں درجہ حرارت کہاں پہنچے گا؟

ترقی پذیر ریاستوں کو درپیش چیلنجز

جرمن واچ نامی تھنک ٹینک کے گلوبل کلائمیٹ انڈکس کی طرف سے تیار کردہ اس رپورٹ کے شریک مصنف ڈیوڈ اَیکشٹائن کہتے ہیں کہ غریب ممالک کو تو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور انہیں بار بار انتہائی شدید نوعیت کے موسمیاتی اور ماحولیاتی حالات و واقعات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

لاہور کے شہری اتنی تیزی سے بیماریوں کا شکار کیوں؟

اس رپورٹ کی ایک شریک مصنفہ ویرا کیُونسیل کے مطابق، ''ان تباہ کن حالات کا سامنا کرتے ہوئے غریب اور ترقی پذیر ممالک کے حالات اس لیے بہت خراب ہیں انہیں ایسی آفات کا سامنا بھی زیادہ کرنا پڑتا ہے اور ان کی ایسے حالات کا مقابلہ کر سکنے کی اہلیت بھی پہلے ہی بہت کم ہے۔‘‘

پانی کا بحران: پاکستان خشک کیوں ہو رہا ہے؟

پاکستان بھی مسلسل متاثر ہونے والے ممالک میں

ویرا کیُونسیل کہتی ہیں، ''بحیرہ کریبیین کے علاقے میں ہیٹی، مشرقی ایشیا میں فلپائن اور جنوبی ایشیا میں پاکستان کی مثال لی جائے تو ان ممالک کو کسی آفت کے اثرات سے نکلنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔

وہ ایک آفت سے نکلتے ہیں تو دوسری کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘

یہ کیسی گرمی ہے؟ نہ دیکھی نہ سنی

اس رپورٹ کی تیاری کے بعد جرمن واچ کی طرف سے آج پیر پچیس جنوری کو جاری کردہ نئے گلوبل کلائمیٹ انڈکس کے مطابق پوری دنیا میں جو دس ممالک شدید موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ان میں سے آٹھ ممالک میں عام شہریوں کی اوسط فی کس سالانہ آمدنی بھی کم یا بہت ہی کم ہے۔

م م / ع ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)