لال قلعہ کی فتخ کی خبر اور صحافتی اخلاقیات کی پامالی

سب سے پہلے کی ریس میں بے بنیاد خبر جگ ہنسائی کا سبب بنے گی.سنیئرصحافیوں کی گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 26 جنوری 2021 18:09

لال قلعہ کی فتخ کی خبر اور صحافتی اخلاقیات کی پامالی
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26 جنوری ۔2021ء) پاکستانی ذرائع ابلاغ نے سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل(اکال تحت )کے جھنڈے کو خالصتان کا جھنڈا قراردیتے ہوئے دہلی کے ”لال قلعہ“کی فتح کی خبریں چلا دیں دوماہ سے شدید سرد موسم میں کھلے آسمان کے نیچے متنازغ زرعی قوانین کے خلاف بھارتی دارالحکومت دہلی کے باہر احتجاج کرنے والے لاکھوں کسان تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے شہر میں داخل ہوگئے.

(جاری ہے)

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق پیر کی شام تک مودی سرکار اور کسان راہنماﺅں کے درمیان مذکرات جاری رہے کسانوں کا کہنا تھا کہ یوم جمہوریہ کی پریڈ کے بعد وہ پرامن طریقے ”ٹریکٹروں“کے ساتھ پریڈ کرکے اپنے مطالبات وزیراعظم کو پیش کرنا چاہتے ہیں تاہم ان کی اس تجویزکو رد کردیا گیا. رات گئے دوبارہ مذکرات کا دور ہوا جس میں کسانوں نے لچک دکھاتے ہوئے پورے دہلی شہر کے گرد چکر کاٹتی ہوئی رنگ روڈ پر ریلی منعقد کرنے کا مطالبہ کیا جس کی منظوری دیدی گئی تاہم آج صبح کسانوں کے سامنے مودی سرکار نے نئے مطالبات رکھے تو انہوں نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے رکاوٹیں توڑتے ہوئے شہر میں داخل ہونا شروع کردیا .

اس سلسلہ میں کسان راہنماﺅں نے حکمت عملی کے تحت شہر میں تین مختلف اطراف سے داخل ہونے کا حکم دیا شہر میں داخل ہونے کے بعد ایک جتھ لال قلعہ کی طرف جانکلا اور ٹریکٹروں سمیت لال قلعہ میں داخل ہوگیا انہوں نے شہر کی فصیل جہاں بھارت کے یوم آزادی پربھارتی پرچم لہرایا جاتا ہے وہاں اور ایک گنبد پر چڑھ کر اکال تحت کا جھنڈا جسے نشان صاحب کہا جاتا ہے سب سے اوپر اوراس کے نیچے کسان اتحاد کا جھنڈا لہرا دیا.

سکھ مذہب میں نشان صاحب کو سب سے اونچا درجہ حاصل ہے اور کوئی بھی جھنڈا نشان صاحب سے اونچا نہیں لہرایا جاسکتا پاکستانی نجی ٹیلی ویژن چینلوں نے نشان صاحب کو ”خالصتان کا جھنڈا“قراردیتے ہوئے سکھوں کی جانب سے لال قلعہ فتح کرنے کی خبریں چلانا شروع کردیں. پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر اور سنیئرصحافی وکالم نگار شہبازانوار خان کا کہنا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے چینلزاور ان کے چلانے والوں کی معلومات کس قدر ناقص ہیں انہوں نے کہا کہ ایک بھیڑچال ہے اگر کوئی ایک چینل غلط خبر چلاتا ہے تو دوسرے تصدیق کی بجائے اس کی اندھادھند تلقید شروع کردیتے ہیں .

انہوں نے کہا کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے لیکن اگر ہم بھارتی ذرائع ابلاغ کی غلط خبروں پر سیخ پا ہوتے ہیں تو ہم کون سا ذمہ داری کا مظاہرہ کررہے ہیں؟ سنیئرصحافی اور ملک کے ایک بڑے نجی چینل کے اسلام آباد میں سابق بیوروچیف شہزاد فاروقی نے کہا کہ صحافت میں روایات اوراقدار تو پہلے ہی دم توڑچکی تھی اب سب سے پہلے کی ریس نے رہی سہی کسر نکال دی ہے ان کا کہنا ہے درست اور تصدیق شدہ معلومات کو لوگوں تک پہنچانا صحافی کا فرض ہوتا ہے مگر نجی چینلوں کی جانب بریکنگ نیوزکے چکر میں غلط اور غیر تصدیق شدہ معلومات چلانا معمول بن چکا ہے.

انہوں نے کہا کہ اگر مالکان کی اکثریت غیرصحافیوں پر مشتمل ہے تو انہیں چلانے والے تو پیشہ ور صحافی ہیں ناں انہیں نظرنہیں آتا کہ کیا ہورہا ہے ؟انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب کسی رپورٹر کی خبر باﺅنس ہوتی تھی تو وہ مہینوں منہ چھپاتا پھرتا تھا آج ایک دن میں درجنوں خبریں باﺅنس ہونے پر بھی سینہ تان کرپھرتے ہیں یہ سے زیادہ زوال اور کیا ہوسکتا ہے.

لاہور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری زاہد چوہدری نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے صحافت کا اندازبدل گیا ہے اور چینلوں کے درمیان مقابلہ بازی سے بلاشبہ معیار گرا ہے مگر اب اس کے آگے بند باندھنا ممکن نہیں رہا ہمیں مل کر خود احتسابی کے لیے ایک ضابط اخلاق طے کرنا چاہیے یہ وقت کی ضرورت ہے. ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“میاں محمد ندیم نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ پرنٹ میڈیا میں وقت کی قید نہ ہونے کی وجہ سے چیک اینڈ بینلس کا نظام مضبوط تھا اگر یہ درست ہے تو آج اخبارات بھی غلطیوں سے کیوں بھرے ہوتے ہیں ‘پرنٹ میڈیا میں بھی غلط خبریں معمول بن گئی ہیں انہوں نے کہا کہ جس طرح آج نجی ٹیلی ویژن چینلزکا وقت کے ساتھ مقابلہ ہوتا ہے ماضی میں نیوزایجنسیوں میں بھی وقت کی قلت کا سامنا ہوتا تھا مگر اس کے باوجود خبریں باﺅنس ہونے کی شرح نہایت معمولی کیوں تھی؟ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر نیوزروم اور اہم انتظامی امور تک ایسے لوگ آگئے ہیں جن کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر انہیں صحافت کا سرے سے کوئی پتہ ہی نہیں .

میاں ندیم نے کہا کہ اگر بڑی تعداد میںغیرصحافی مالکان آگئے ہیں تو دنیا بھر میں رائج طریقہ کار کو اپنایا جائے یعنی انویسٹرکو صحافتی امور سے دور رکھا جائے چیف ایڈیٹرکو پاکستان میں مالک سمجھاجاتا ہے اور بیشتر اداروں کے چیف ایڈیٹر مالکان ہی ہیں لیکن اگر مالک کو صحافت کی سمجھ بوجھ نہ ہو تو وہ پروفیشل صحافی کو چیف ایڈیٹر تعینات کرتا ہے جو ادارے کے امورکو چلاتا ہے انہوں نے کہا کہ آج کی خبر کی مثال کو سامنے رکھیں تو ہمارے میڈیا نے ”خالصتان تحریک“کو فائدہ نہیں نقصان پہنچایا ہے .

انہوں نے کہا کہ حیران کن ہے کہ بڑی تنخواہیں مراعات لینے والے ڈائریکٹرنیوزاتنے لاعلم اور بے خبر ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ بھارت میں خالصتان کا جھنڈا رکھنا جرم ہے دوسرا ان کی معلومات اتنی ناقص ہیں کہ انہیں ”نشان صاحب“اور خالصتان کے جھنڈے میں فرق ہی دکھائی نہیں دیا؟ بھارت سے ہماری دشمنی اپنی جگہ مگر اس طرح گمراہ کن معلومات صحافتی اقدار اور احلاقیات کے خلاف ہیں.