اٹامک انرجی کمیشن کا ایک اور کارنامہ ، زرعئ شعبہ میں نمایاں کارکردگی کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف

منگل 26 جنوری 2021 19:21

اسلام آباد۔26جنوری  (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26جنوری2021ء) :بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے ذیلی ادارہ  NIAB کے ان کوششوں کی تعریف کی ہے جو وہ پاکستان میں کپاس کی فصلوں کے احیاء اور اس طرح ٹیکسٹائل کی صنعت کے فروغ کے لئے کر رہا ہے ۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی  کی  بین الاقوامی سپروائزری کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے ادارے NIAB کے ان اقدامات کو سراہا گیا جو وہ پاکستان میں زراعت کہ بہتری کے لئے اٹھارہا ہے۔

اسے اس دور ميں کسانوں کے لئے امید کى ایک کرن سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔IAEA   ایک پریس مراسلے میں پریس انفارمیشن آفس نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمى درجہء حرارت کے بڑھنے کے تناظر میں پاکستان میں کپاس کی پیداوار کو نقصان پہنچا ہے  تاہم نیو کلئیر ٹیکنالوجی کے استعمال سے کپاس  کی  ایسى قسمیں متعارف کی گئی ہیں جو بدلتے ہوئے  موسمیاتی حالات سے بہتر مطابقت رکھتى ہىں۔

(جاری ہے)

بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی اور امریکہ کے ادارہ خوراک و زراعت کے اشتراک سے مقامى سائنسدانوں کو تربیت فراہم کى گئى ہے کہ وہ فصلوں کی ان اقسام کہ افزائش کریں جو نہ صرف بدلتے موسمیاتی حالات سے مطابقت کا مظاہرہ کریں بلکہ اچھى پیداوار ى صلاحيت بھى دکھا سکیں ۔ کپاس کى چار قسموں کو 2016ء  میں متعارف کروایا گیا اوراب یہ کپاس کے زیر کاشت 40 فیصد رقبے پر کاشت کی جارہی ہیں ۔

منظور حسین  ڈپٹى چیف سائنسدان پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے ادارے NIAB کے حوالے سے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیاں اس خطہ میں زراعت کو متاثر کر رہى ہیں، کپاس کی کاشت اب اتنى منافع بخش نہیں رہى۔ ایک زرعی ماہر کے طور پر انھوں نےکہا کہ زراعت کو ملکى معیشت میں ریڑھ کى ہڈى کى حیثیت حاصل ہے اور نیو کلئیر ٹیکنالوجی  کی مدد سے ہم زراعت کو مزید منافع بخش بنا سکتے ہیں ۔

بین الااقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی اور امریکى ادارہ خوراک و زراعت کے تعاون سے یہ پروگرام NIAB فیصل آباد کے زرعى سائنسدانوں کو تربیت فراہم کر رہا ہے جس کا ثمر کپاس کى ان چار قسموں کہ صورت ميں حاصل ہوا ہے۔بہا ولنگر کے ایک کسان محمد اکرم نے فخر سے یہ بتایا کہ کپاس کى اس نئى ورائٹى کہ کاشت سے اسے 30 فیصد زيادہ پیداوار حاصل ہوئى ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس  سال درجہء حرارت بڑھنے سے کپاس کى کاشت ميں مسائل کا سامنا رہا۔

اس نے مزید بتایا کہ کپاس کہ اس قسم نے نہ صرف درجہء حرارت کو برداشت کيا بلکہ بہتر پیداوار بھى دى۔ اس سےان اقسام کی کاشت اور مقبولیت میں ا ضافہ ہو رہا ہے۔مسٹر لىپو جىنکو لوسکى جو آئی اے ای اے کی مشترکہ ریسرچ ٹیم سے وابستہ ہیں انھوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نئى ورائٹى کی کپاس کی نہ صرف پیداوار ى صلاحيت بہتر ہے بلکہ کپاس کے ریشے کا معیار بھى بلند تر ہے۔

ماحولیاتی مطابقت میں بھى یہ فصلیں بہتر ہیں ۔انھوں نے امید ظاہر  کی کہ آبادى کہ ضروریات کے مطابق ان اقسام سے پیداوار حاصل ہوتی رہے گى۔ بین الااقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی اور امریکہ کے ادارہ خوراک و زراعت کے تعاون سے اس پروگرام کا مقصد ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے ساتھ افرادی تربیت کے حصول پر مشتمل طویل المدت زرعی اہداف کا حصول ہے۔ اس تربیت میں خاص طور سے درجہء حرارت میں ا ضافہ اور خشک سالى جیسے عوامل سے مقابلہِ کرنے والى فصلوں کہ اقسام کہ تحقیق شامل ہے۔

منظور حسین نے کہا کہ فصلوں  کی  افزائش ميں افرادی تربیت ىمارى قومى ترجیح ہونى چاہئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ کپاس کى پیداوار سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور اس شعبے میں زرعى تحقیق بہت اہم ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر اىنڈ ٹیکنالوجی NIAB، فیصل آباد،  پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے زیر اہتمام چار زرعی سینٹر ز میں سے ایک ہے۔

جہاں سے اب تک 115 اقسام کہ اجناس اور نقد آور فصلیں تیار کی جا چکى ہیں ۔ اب تک کپاس کی 16 ورائیٹیز متعارف کی جا چکى ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق کپاس کی نو دريافت شدہ چار اقسام کپاس کے زیر کاشت 56 فیصد رقبے پر کاشت کئے جانے کا امکان ہے۔پاکستانی سائنسدان اس شعبے میں اس قدر مہارت حاصل کر کے ہیں کہ کئى ہمسایہ ممالک کے سائنسدانوں کو بھى اپنے تجربات اور مہارتیں سکھا سکتے ہیں ۔ پاکستان اس میدان میں خطہ کے دیگر ممالک سے آگے ہے ۔