امریکا کا بحیرہ احمر کے ساحلوں کے ساتھ سعودی عرب میں تین فوجی اڈے قائم کرنے کا منصوبہ

2019میں ریاض کے قریب صحرا میں پرنس سلطان ایئربیس امریکی فوج کے حوالے کیا گیا تھا‘ایک فوجی اڈاہ مکہ کے قریب طائف میں قائم کیا جائے گا.رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 27 جنوری 2021 13:37

امریکا کا بحیرہ احمر کے ساحلوں کے ساتھ سعودی عرب میں تین فوجی اڈے قائم ..
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 جنوری ۔2021ء) امریکا سعودی عرب کی بحیرہ احمرپر کے ساتھ ساتھ مزید تین فوجی اڈاے قائم کررہا ہے تاہم ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ بحیرہ احمرپر یہ فوجی اڈاے جدہ کی بندرگاہ کے قریب ہونگے یا کسی اور علاقے اب تک سامنے آنے والی تفصیل میں صرف اتنا ہی بتایا گیا ہے ینبع بندرگاہ پر امریکی فوج نے اپنا سامان اتارنے اور لیجانے کی مشقیں کی ہیں.

(جاری ہے)

ینبع سعودی عرب کا چھوٹا ساساحلی شہر ہے جو سیاحتی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے اس کے علاوہ مکہ مکرمہ سے ملحقہ شہر طائف اور سرحدی شہر تبوک میں بھی فوجی اڈاے قائم کرنے پر غور کیا جارہا ہے تبوک اسرائےل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق نئے فوجی اڈاے ”ایران کے خطرے“سے نمٹنے کی پیش بندی کے طور پر قائم کیئے جارہے ہیں.

امریکی فوج نے اس اقدام کو کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی تیاری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی فوج نے سعودی عرب کی ینبع بندرگاہ پر اپنا سامان اتار نے اور سامان لے جانے کا تجربہ کیا ہے یہ بندرگاہ سعودی عرب کی اہم ترین تیل کی پائپ لائنوں کے قریب ہے. امریکی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بحیرہ احمر کی ساحلوں پر ینبع کے ساتھ ساتھ تبوک اور طائف میں امریکی ہوائی اڈے، امریکی فوج کو مزید متبادلات فراہم کریں گے، کیونکہ ان مقامات پر یمن سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی مشتبہ ڈرون حملے کرتے رہے ہیں.

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات 2018 میںصحافی جمال خشوگی کے قتل اور سعودی عرب کی یمن میں جاری جنگ کی وجہ سے کشیدہ ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کیلئے مقدس سرزمین پر امریکی افواج کی عارضی تعیناتی سے بھی شدت پسند مشتعل ہو سکتے ہیں. سینٹرل کمان کے ترجمان امریکی بحریہ کے کیپٹن بل اربن کا کہنا ہے کہ نئے فوجی اڈوں کیلئے جگہ کی تلاش گزشتہ ایک سال سے جاری ہے اور اس کا آغاز 2019 میں سعودی عرب کی تیل کی صنعت پر ہونے والے ڈرون میزائل حملوں کے بعد کیا گیا تھاان حملوں سے سعودی عرب کی تیل کی پیداوار عارضی طور پر رک گئی تھی اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا سعودی عرب اور امریکہ نے حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا تھا.

ایران نے اِن حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا جبکہ حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی تاہم حملوں میں استعمال ہونے والے ڈرون بظاہر ایران کے تیار کردہ تھے. کیپٹن بل اربن نے بیان میں کہا ہے کہ یہ فوجی منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے معقول اقدامات ہیں جو کسی ہنگامی صورت حال میں مزید سہولتوں کے عارضی اور مشروط استعمال کی اجازت دیتے ہیں اور یہ کسی بھی لحاظ سے اشتعال انگیز نہیں ہیں اور نہ ہی عمومی سطح پر خطے میں یا خصوصی طور پر سعودی عرب میں امریکی موجودگی کو وسعت دینے کی کوئی کوشش ہیں.

یو ایس سینٹرل کمان کے سربراہ یو ایس میرین جنرل فرینک مکینزی نے پیر کے روز ینبع کا دورہ کیا دورے کے دوران جنرل مکینزی کے ہمراہ سفر کرنے والے ڈیفنس ون اور اخبار وال سٹریٹ جرنل کے رپورٹروں نے ہی سب سے پہلے امریکی فوجی منصوبہ بندی کی خبر دی تھی سعودی عہدیداروں نے ابھی تک اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا. یادرہے کہ 2019میں امریکی فوج نے سعودی دارالحکومت کے قریب الخرج کے قریب صحرا کے بیچوں بیچ واقع ”پرنس سلطان ایئربیس“امریکا کے حوالے کیا تھا سعودی عرب میں قائم اس فوجی اڈاے کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ عراق ‘افغانستان اور لیبیا سے نکلنے والے امریکی فوجی دستوں اور سازوسامان کو ”پرنس سلطان ایئربیس “پر منتقل کیا گیا تھا .