اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جنوری 2021ء) ایرانی جوہری معاہدہ طویل سفارتی کوششوں اور گفت و شنید کے بعد ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 ء میں طے پایا تھا، جس کے مطابق ایران نے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا تھا جس کے جواب میں اس پر لگی بین الاقوامی پابندیاں ختم کی جانا تھیں۔ تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران کے خلاف نہ صرف پابندیاں بحال کر دی تھیں بلکہ ان پابندیوں میں وقتاﹰ فوقتاﹰ اضافہ بھی کرتے رہے۔
اسرائیلی فوجی سربراہ کا ایران پر حملہ کرنے کے نئے منصوبوں کی تیاری کا حکم
خلیج میں کشیدگی بڑھتی ہوئی: ایران کی میزائل ڈرل کی تیاری
ایران
جوہری معاہدے کا آخری موقع ضائع نہ کرے: جرمنینئے امریکی صدر جو بائیڈن نے 20 جنوری کو صدارتی حلف اٹھانے کے بعد سے ایسے بہت سے متنازعہ فیصلوں کو تبدیل کر دیا ہے جو ٹرمپ انتظامہ نے کیے تھے۔
(جاری ہے)
'حقائق کی درستی، امریکا نے معاہدے کی خلاف ورزی کی‘
تاہم ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے آج جمعرات 28 جنوری کو امریکا کے اس مطالبے کو رد کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی امریکا نے کی تھی لہٰذا اسے ہی پہل کرنی چاہیے۔
اپنے اس پیغام میں انہوں نے امریکی وزیر خارجہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ انہیں حقائق کو مد نظر رکھنا چاہیے، اس معاہدے کی خلاف ورزی امریکا نے کی، لہٰذا اب کس کو پہلا قدم اٹھانا چاہیے؟ جواد ظریف نے مزید لکھا کہ ٹرمپ کی انتہائی ناکامی کو مدنظر رکھا جانا چاہیے اور یہ کہ ایران نے اس معاہدے پر عمل کیا اور اس نے صرف 'احتیاطی تدابیر‘ کے طور پر اقدامات کیے۔
ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ
ایران
نے رواں برس چار جنوری کو اعلان کیا تھا کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی شرح میں اضافہ کر کے اسے 20 فیصد تک لے آیا ہے۔ یہ شرح جوہری معاہدے میں طے شدہ شرح 3.67 سے تو بہت زیادہ ہے مگر اس سے کہیں زیادہ کم ہے جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔تہران حکومت بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کر چکی ہے کہ اسے جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے پہل کرنی چاہیے اور یہ کہ اسے ایران کے خلاف لگائی گئی تمام تر پابندیاں ختم کرنا چاہییں۔
ا ب ا / ک م (اے ایف پی)