بی این پی کے 6نکات سے وفا ق کے انکار سے واضح ہورہاہے وہ بلوچستان کامسئلہ خوش اسلوبی سے حل نہیں کرناچاہتے، سرداراختر مینگل

لاپتہ افراد سے متعلق بل پیش کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن وہ بحیثیت اتحادی ٹال ومٹول سے کام لیتی رہی ملک میں حکومت کی طرف سے سیاسی رہنمائوں کو دبائو میں لانے کیلئے اہل خانہ کو ٹارچر کیاجاتا رہاہے ،5ہزار 128لاپتہ افراد کی لسٹ جن میں طالب علم ،سیاسی کارکن سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں کے لوگ چامل تھے کی لسٹ دی تھی،انٹرویو

بدھ 10 فروری 2021 23:42

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 فروری2021ء) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ورکن قومی اسمبلی سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ بی این پی کے 6نکات بلوچستان کے جملہ مسائل کے حل کاایک راستہ تھا لیکن وفاقی حکومت کے انکار سے واضح ہورہاہے کہ وہ بلوچستان کامسئلہ خوش اسلوبی سے حل نہیں کرناچاہتا،لاپتہ افراد سے متعلق بل پیش کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن وہ بحیثیت اتحادی ٹال ومٹول سے کام لیتی رہی ،ملک میں حکومت کی طرف سے سیاسی رہنمائوں کو دبائو میں لانے کیلئے اہل خانہ کو ٹارچر کیاجاتا رہاہے ،5ہزار 128لاپتہ افراد کی لسٹ جن میں طالب علم ،سیاسی کارکن سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں کے لوگ چامل تھے کی لسٹ دی تھی ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔

(جاری ہے)

سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ نیپ قیادت کے خلاف حیدرآباد ٹریبونل کیس چل رہاتھا اور میرے والدجیل میں تھے خاندان کے واحد فیملی ممبر جو کراچی نیشنل کالج میں سیکنڈ ایئر کے طالب علم تھے 1976میں 6فروری کو وہ مغرب سے کچھ دیر اپنے دوست کے ساتھ نکلے تھے رات دیر کو ہمیں اطلاع ملی کہ ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی ہے موبائل کازمانہ تو نہیں تھا بعد میں پتہ چلا کہ وہ بلخ شیر مزاری کے گھر پر تھے وہ اکثر ٹیلی فون کرنے وہاں جایا کرتے تھے ،اس وقت تمام علاقے کی بجلی بند کردی گئی اور چوکیدار کو کہاکہ میری کال آئے تومجھے بلا لینا لیکن عینی شاہد جو خود طالب علم تھے انہوں نے کہاکہ ایک گاڑی سے دو لوگوں کو اتار کر اپنے ساتھ لے گئے ،پولیس نے ہمیں اتنا تنگ کیا ہمیں ہی انٹروگیٹ کررہے تھے صبح گاڑی کو دیکھا تو اس میں خون کے دبے تھے گاڑی پولیس نے قبضے میں لے لی تھی اس وقت ہم شش وپنج میں تھے کہ وہ زندہ یا مار دیاگیاہے حکومت کی طرف سے آج دن تک ہمیں یہ نہیں بتایاگیاکہ انہیں مار دیاگیاہے یا زندہ ہے ،اس وقت میری عمر 14سال تھی ،اس کی تدفین سے مختلف رائے ہیں ،انہوں نے کہاکہ حکومت کا ایک وطیرہ رہاہے کہ سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کو دبائو میں لانے کیلئے ان کے اہل خانہ کو ٹارچر کیاجاتا تھا یا پھر گرفتار کیاجاتاتھا تاکہ وہ سیاسی رہنماء ان کی باتوں پر لبیک کہتے ہوئے ان کا ساتھ دیں ،میرے والد جیل میں تھے اور دل کے مریض تھے ان کو صبح اخبار میں خبر کے ذریعے پتہ چلا ،جب ضیاء الحق کا دور آیا تو حیدرا ٓباد سازش کیس ختم کیاگیا اور میرے والد علاج کیلئے باہر جارہے تھے تو ضیاء الحق نے آکر انہیں تسلی دی کہ آپ مطمئن رہیں آپ علاج کرائیں اس وقت تک ہم آپ کے بیٹے کی معلومات کریںگے ،انہوں نے کہاکہ 2018ء میں موجودہ حکومت نے اعلان کیاتھاکہ وہ انٹرنیشنل کنونشن برائے انفورسڈ ڈسااپیئرنس کا حصہ بنیںگے لیکن ابھی تک وفاقی برائے انسانی حقوق نے اپنے انٹرویو میں بھی کہاتھا اور جب ہم ان کے اتحادی تھے تو میں نے ان سے ملاقات کی تو انہوں نے کہاتھاکہ ہم اس طرح کا بل بھی لائیںگے ،یہ بل حکومت کو لاناچاہیے تھے لیکن حکومت شاید اپنے کمپرومائزز کی وجہ سے نہیں لاپارہے کیونکہ پی ٹی آئی قیادت کااقتدار سے پہلے طرز عمل ایک تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کا رویہ تبدیل ہوگیا انہوں نے خود ہم سے کہاتھاکہ ہم اس طرح کا بل لائیںگے بحیثیت اتحادی مل کر یہ بل لائیںگے لیکن وہ ٹال ومٹول کرتے رہے فلور آف دی ہائوس پر شیریں مزاری نے یہ اعتراف کیاکہ یہ بل ہم نے کابینہ سے لاء منسٹری کی طرف بھیجا ہے لیکن لاء منسٹری اس میں روڑے اٹکا رہی ہے پھر میں اور محسن داوڑ نے اس بل کو ایوان میں پیش کیا،وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہاں پر پارلیمنٹ کی بالادستی ،عوامی نمائندوں کی حکومت ہے مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت آئی لیکن اس پر دستخط یا بل پاس نہیں ہوسکااس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ قوت جو روز اول سے اس انفورسڈ ڈسااپیئرنس کے ذمہ دار ہے چاہے وہ پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ(ن) ہو یا پھر پی ٹی آئی کا حکومت ہو بڑی بے دردی اور بے رحمانہ انداز سے لوگوں کو لاپتہ کیاجارہاہے ،انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے ساتھ 2018ء کے الیکشن کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں نے حکومت سازی کیلئے رابطے کئے ان کے سامنے ہم نے بلوچستان کے دیرینہ مسائل جن میں سرفہرست لاپتہ افرادسمیت دیگر شامل تھے ان کے سامنے رکھیں پیپلزپارٹی نے کہاکہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور پھر پی ٹی آئی نے رابطہ کیا ہمارے مطالبات کافی وسیع تھے ان کے وفود جہانگیر ترین ،شاہ محمود قریشی اور دیگر کوئٹہ آئے تو ہم نے ان کو کم کرکے چھ نکات ان کے سامنے پیش کئے سرفہرست لاپتہ افراد،گوادر کے حوالے سے قانون سازی ،ترقیاتی پروجیکٹس ،ساحل وسائل ، افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی تمام شرائط تھے جن پر پی ٹی آئی قیادت نے دستخط کئے اس سلسلے میں ہم نے بار ہا انہیں یاد دہانی کراتے رہے اس دوران کچھ لوگ بازیاب ہوئے تقریباًً4سو سے زائد لوگ بازیاب ہوئے ہماری لسٹ 5ہزار 128افراد کی تھی جن میں طالب علم ،سیاسی کارکن سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لوگ تھے جب حکومت کو ہمارے ووٹ کی ضرورت پڑتی تولوگوں کو چھوڑ دیاجاتا تھا الیکشن مہم میں کبھی کسی حلقے میں ہم نے یہ نہیں کہاکہ ہم دودھ اور شہد کی نہریں بنوائیںگے لوگوں کا مطالبہ تھاکہ ہمارے لاپتہ افراد کی بازیابی میں اپنا کرداراداکرے ،حکومت نے ان تمام پہلوئوں کو نظرانداز کرناشروع کردیا تو ہم نے حکومت کو خیرآباد کہہ دیا،انہوں نے کہاکہ گزشتہ 70سالوں میں جو حالات اور حکومتیں گزری یقین کسی پر نہیں کیاجاسکتا تھا جب انہوں نے معاہدے پر دستخط کئے تو یہ بات تسلیم ہوگئی کہ یہاں پر لاپتہ افراد ہیں پہلے تو انکار کیاجارہاتھا لوگ افغانستان چلے گئے ،ہم نے بارہا کہاکہ ان چھ نکات سے بلوچستان کا جملہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ان جملہ مسائل کے حل کیلئے یہ ایک راستہ ہے ،ان کابلوچستان کے مسائل کے حل سے انکاری یا بات کو نہ ماننے سے اس بات کااعتراف ہورہاہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل نہیں کرنا چاہتے دستخط سے یہ ثابت ہوگیاکہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک میں لاپتہ افراد کامسئلہ اہم ہے ۔