شہزاد رائے نے جسمانی تشدد پر پابندی کے بِل کو بچوں کیلئے بہترین تحفہ قرار دیدیا

بدھ 24 فروری 2021 23:34

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 فروری2021ء) موسیقار، گلوکار اور انسانی حقوق کے کارکن شہزاد رائے نے قومی اسمبلی سے جسمانی تشدد پر پابندی کے بِل کو بچوں کیلئے بہترین تحفہ قرار دیدیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم اسکول میں تھے تو پٹائی کلچر تھا، میں کسی کا نام نہیں لینا چاہوں گا لیکن ہم سب نے ہی کسی نہ کسی موقع پر مار کھائی ہے۔

شہزاد رائے نے بتایا کہ ' اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کا خیر سگالی سفیر بننے کے بعد میں نے سینٹرل جیل کراچی میں کنسرٹ میں کیا تھا اور وہاں موجود بچوں سے بات چیت کی تھی'۔گلوکار نے بتایا کہ ان میں سے اکثر بچوں نے بتایا کہ انہیں مار نہیں پڑتی کیونکہ وہ صرف بڑی چوٹوں جیسا کہ سر پھٹنے یا تشدد پر ہی غور کرتے تھے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ جب بچوں کو جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں، تو معاشرہ انہیں، ایک پوری نسل کو یہ بتاتا ہے کہ تشدد کسی مسئلے کو حل کرنیکا درست ذریعہ ہے۔

شہزاد رائے نے کہا کہ 'جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین اس کی پٹائی کرتے ہیں، جب وہ تعلیم کے حصول کے لیے اسکول یا مدرسہ جاتا ہے تو اساتذہ اسے مارتے ہیں اور آخر کار پولیس بھی اسے بے رحمی سے مارتی ہی'۔گلوکار نے مزید کہا کہ 'بچہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر کسی مسئلے کو ٹھیک کرنا ہے تو تشدد ہی اس کا واحد حل، واحد راستہ ہی'۔ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے میں زور دیتا ہوں کہ اپنے بچوں کی حفاظت کریں، انہیں پڑھائیں، سخت سزائیں نہ دیں۔

شہزاد رائے جنہوں نے حالیہ دنوں مختلف قانون سازوں بشمول اسپیکر قومی اسمبلی کو فوری طور پر اس بل پر کارروائی پر زور دیا تھا، اس کی منظوری پر بہت زیادہ خوش ہیں۔گلوکار نے مزید کہا کہ 'یہ میری طرف سے پاکستان کے بچوں کے لیے بہترین تحفہ ہی'۔بچوں پر جسمانی تشدد پر پابندی کے بل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ' 2012 سے اس ضمن میں ایک تبدیلی آئی ہے جو میں دیکھ رہا ہوں کہ پہلے جب کوئی بڑا کسی بچے کو مارتا تھا تو لوگ اس کی ویڈیوز بناتے تھے، وہ سوشل میڈیا پر شیئر ہوتی تھیں اور وہ مجرم پکڑا جاتا تھا'۔

انہوں نے کہا کہ تاہم بعدازاں اس شخص کو رہا کردیا جاتا لیکن اب ایسے افراد جو تشدد کرتے ہیں انہیں رہا نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف بل کی منظوری ہی اس مسئلے کا حل نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ اصلاحات چلتی رہتی ہیں۔شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ بچوں کے تحفظ کے اداروں اور محکمہ معاشرتی بہبود دونوں کو یکساں طور پر مضبوط کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سخت ترین لڑائی ہمارے نصاب میں مہارت پر مبنی تعلیم کو شامل کرنا ہے۔ شہزاد رائے نے اس بِل کی منظوری کو ایک مثبت پیشرفت قرار دیا اور ساتھ ہی کہا کہ اس حوالے سے مزید کام ہونے کی ضرورت ہے۔گلوکار کا کہنا تھا کہ ایسے تمام اقدامات قومی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ اور بھی مسائل ہیں جنہیں حل کرنا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ برس فروری میں شہزاد رائے نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔درخواست میں سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری قانون، سیکریٹری تعلیم، سیکریٹری انسانی حقوق اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کو فریق بنایا گیا تھا۔