بھارت شدت پسندوں کواسلحہ، پیسے اور نئی ٹیکنالوجی فراہم کررہا ہے، ترجمان پاک فوج

پاکستان مخالف شدت پسندوں کی مدد افغانستان سے کی جارہی ہے، آرمی چیف کا ہمسایہ ممالک کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانے کا یہ مطلب نہیں کہ مشرقی سرحد پر درپیش خطرات سے آگاہ نہیں ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل بابر افتخار کی گفتگو

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ بدھ 24 فروری 2021 21:02

بھارت شدت پسندوں کواسلحہ، پیسے اور نئی ٹیکنالوجی فراہم کررہا ہے، ترجمان ..
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 فروری2021ء) ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ بھارت شدت پسندوں کو اسلحہ، پیسے اور نئی ٹیکنالوجی فراہم کررہا ہے، پاکستان مخالف شدت پسندوں کی مدد افغانستان سے کی جارہی ہے، آرمی چیف کا ہمسایہ ممالک کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانے کا یہ مطلب نہیں کہ مشرقی سرحد پر درپیش خطرات سے آگاہ نہیں ہیں، بھارت کی تمام فوجی نقل وحرکت پر گہری نظر ہے۔

راولپنڈی میں ملاقات کرنے والے غیرملکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیرستان میں شدت پسندوں کا کوئی منظم گروہ نہیں رہا، وزیرستان میں چھوٹے موٹے شدت پسند کارروائیاں کر رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں پر شدت پسندوں کا ردعمل آرہا ہے۔ خواتین کی کار پر حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

(جاری ہے)

وزیرستان میں ان چھوٹے موٹے شدت پسندوں کا جلد خاتمہ کردیا جائے گا۔

پاکستان ہر قیمت پر افغانستان میں امن چاہتا ہے۔افغانستان میں امن کیلئے جو ہوسکتا تھا وہ پاکستان کرچکا۔ پاکستان نے طالبان پراپنا اثرورسوخ جس قدر ممکن تھا استعمال کرلیا۔بھارت پاکستان مخالف شدت پسندوں کی مدد کررہا ہے، پاکستان مخالف شدت پسندوں کی مدد افغانستان سے کی جارہی ہے، یہ بات بعید ازقیاس نہیں کہ یہ سب افغان انٹیلی جنس کے علم میں ہے۔

انڈیا انہیں اسلحہ، پیسے اور نئی ٹیکنالوجی سے بھی نواز رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیچ میں ہزارہ کان کنوں کے قتل پر چند افراد کو حراست میں لیا ہے۔ یہ بہت اہم گرفتاریاں ہیں لیکن مزید تفصیل نہیں دے سکتا۔ مسنگ پرسنز پر بننے والے کمیشن نے بہت پیشرفت کی ہے۔ مسنگ پرسنز کا معاملہ بہت جلد حل ہو جائےگا۔ کمیشن میں6 ہزار سے زائد مقدمات میں سے 4 ہزار حل کیے جاچکے۔

مزید برآں نیوز ایجنسی اور عرب ویب سائٹ اردوانڈیپنڈنٹ کے مطابق بدھ کو راولپنڈی میں غیر ملکی میڈیا نمائندگان سے ملاقات میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے اہم امور پر بات چیت کی۔پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے صحافیوں سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان فوجی تحویل سے فرار ہوئے تھے اور ان کے فرار میں چند فوجی اہلکار ملوث تھے جن کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کارروائی سے متعلق پیش رفت جلد میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائے گی۔ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے گذشتہ برس فروری میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان فوجی تحویل سے فرار ہو کر بیرون ملک جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ احسان اللہ احسان کو ایک آپریشن میں استعمال کیا جا رہا تھا کہ اس دوران وہ فرار ہو گئے تھے۔

انہوں نے احسان اللہ احسان کی جانب سے جاری کردہ آڈیو ٹیپ کو بھی جھوٹا قرار دیا تھا۔ گذشتہ دنوں احسان اللہ احسان کے نام سے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ملالہ یوسف زئی کے خلاف دھمکی آمیز ٹویٹ کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ وہ اکاؤنٹ احسان اللہ احسان کا اصلی اکاؤنٹ ہے اور اس باے میں ان کے پاس مزید کوئی معلومات نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں علم نہیں احسان اللہ احسان اس وقت کہاں ہیں ۔ خطے کی صورت حال اور پاکستان کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کی پالیسی ہمسایوں کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانا ہے۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے بھی حالیہ بیان میں ہمسایہ ممالک کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانے کی بات کی تھی لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ پاکستان مشرقی سرحد پر درپیش خطرات سے آگاہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی تمام فوجی نقل و حرکت پر ہماری نظر ہے اور پاکستان ان خطرات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے فوجی سطح پر اچھے تعلقات ہیں اور پاکستان کے ٹریننگ سینٹر سعودی عرب میں موجود ہیں لیکن ان کا یمن تنازعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔سابق آرمی چیف راحیل شریف کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ وہ ابھی سعودی عرب میں ہی ہیں اور اپنی عہدے پر موجود ہیں۔

ہمسایہ ممالک سے تعلقات پر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان ایران سرحد پر باڑ لگانے کا معاملہ باہمی طور پر حل کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایران کا دورہ کیا تھا اور سرحدی باڑ پر ایران کے تحفظات دور کر دیے تھے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں حالیہ دہشتگردی کے واقعات پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان میں اب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں لیکن چند عناصر موجود ہیں جو دوبارہ فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں بیرونی ایجنسیوں کی جانب سے اسلحے اور مالی معاونت کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج ان دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔ افغان امن عمل پر بات کرتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ افغان طالبان مذاکرات کے معاملے پر غور کر رہی ہے اور پاکستان کا اس معاملے پر یہی موقف ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں اور اس میں تعطل بالکل نہیں آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان امن مذاکرات کا حامی ہے۔