جو بائیڈن اور شاہ سلمان میں بات چیت

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 26 فروری 2021 11:40

جو بائیڈن اور شاہ سلمان میں بات چیت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 فروری 2021ء) وائٹ ہاؤس نے جمعرات 25 فروری کو ایک بیان میں امریکی صدر جو بائیڈن اور سعودی عرب کے فرما ں روا شاہ سلمان کے درمیان فون پر بات چیت کی تصدیق کی تاہم سن 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔

اس قتل سے متعلق امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کا منظر عام پر آنا دونوں ملکوں کے درمیان قریبی دیرینہ رشتوں کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں ہے۔

رپورٹ میں کیا پہلو سامنے آ سکتے ہیں؟

جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کلاسیفائیڈ یعنی خفیہ دستاویز ہے اور خیال کیا جا تا ہے کہ اس میں اس قتل کی ذمہ داری ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر عائد کی جاسکتی ہے۔

(جاری ہے)

واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خاشقجی شہزاد ہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں اور اقتدار پر ان کی گرفت کی کوششوں پر نکتہ چینی کے لیے معروف تھے۔

انہیں 2018 میں استنبول میں سعودی عرب کے سفارت خانے کے اندر قتل کر دیا گیا تھا۔

سعودی عرب نے اس قتل کے لیے پانچ افراد کو بیس بیس برس قید کی سزا بھی سنائی ہے۔ میڈیا میں اس حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی ہیں اس کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسیوں نے تفتیش کے بعد سن 2018 میں ہی یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ شاہ سلمان کے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے ہی غالبا ًاس قتل کا حکم دیا تھا۔

تاہم یہ رپورٹ اب تک ریلیز نہیں کی گئی اور اب اسے ریلیز کیا جا رہا ہے۔

بائیڈن اور شاہ سلمان میں کیا بات ہوئی؟

وائٹ ہاؤس نے بات چیت سے متعلق اپنے بیان میں اس رپورٹ کا تذکرہ کیے بغیر کہا کہ جو بائیڈن اور شاہ سلمان نے اپنی دیرینہ پارٹنر شپ کے بارے میں گفت و شنید کی۔ بیان میں کہا گیا کہ صدر بائیڈن نے خواتین کے حقوق کی علمبردار لوجین الہضلول سمیت حال ہی میں سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے سعودی عرب کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔

دونوں رہنماؤں نے ایران کی جانب سے مشرق وسطی کو، ''غیر مستحکم کرنے اور شدت پسند گروپوں کی حمایت کرنے جیسی سرگرمیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔''

رپورٹ اہم کیوں ہے؟

جمال خاشقجی کے قتل میں شہزادہ سلمان کی شمولیت کو تسلیم کرنے سے، امریکا اور عرب دنیا میں اس کے سب سے اہم اتحادی، سعودی عرب کے مابین تعلقات پر گہرا سایہ پڑنے کا خدشہ ہے۔

ٹرمپ کے دور اقتدار میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کافی بہتر ہوئے تھے کیونکہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے سعودی عرب پر نکتہ چینی سے گریز کیا کرتے تھے۔

شہزادہ محمد بن سلمان کے نکتہ چیں اور انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں چاہتی ہیں کہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے لیے سعودی عرب کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے امریکی انتظامیہ کو تھوڑا سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

وہ چاہتی ہیں کہ امریکا ایسی پابندیاں یا اقدامات کرے جس سے محمد بن سلمان کو الگ تھلگ کیا جا سکے۔

ایسے گروپوں کو اس بات کا بھی ڈر ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی اپنے دیرینہ رشتے اور ایران کے تناظر میں دفاعی نکتہ نظر سے بہت اہم سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کے مقصد سے صرف مذمتی بیان جاری کریگی اور شاید سخت موقف اختیار نہ کرے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی، روئٹرز)