جمال خشوگی قتل:سعودی عرب نے امریکی رپورٹ مسترد کردی

رپورٹ شائع ہونے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں دراڑآنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں.ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 27 فروری 2021 13:39

جمال خشوگی قتل:سعودی عرب نے امریکی رپورٹ مسترد کردی
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 فروری ۔2021ء) سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف سعودی نژاد امریکی شہری اور صحافی جما ل خشوگی کے قتل پر امریکا کی4صفحات پر مشتمل انٹیلی جنس رپورٹ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے رپورٹ شائع کیئے جانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں دراڑآنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں ادھر سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے امریکی انٹیلیجنس رپورٹ کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے سعودی قیادت کے خلاف ”جارحانہ اور غلط“ اقدام قرار دیا اور یہ کہا کہ وہ اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتے.

(جاری ہے)

سعودی وزارت خارجہ نے سرکاری نشریاتی ادارے کے ذریعے ایک سرکاری بیان میں کہا ہے کہ اس رپورٹ میں غلط معلومات کا ایک مجموعہ اور جھوٹے نتائج شامل ہیں کسی بھی ایسے معاملے کو مسترد کرتے ہیں جو ملک کی قیادت، خود مختاری اور اس کی عدلیہ کی آزادی کے لیے تعصب کا باعث بنے. سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں ایسی رپورٹ جاری کرنے اور اس میں پائے جانے والے غلط اور بلاجواز نتائج پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب سعودی سلطنت نے اس گھناﺅنے جرم کی مذمت کی تھی اور اس کی قیادت نے یہ یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے تھے کہ مستقبل میں دوبارہ ایسا بدقسمت واقعہ نہ دہرایا جا سکے.

امریکی قومی انٹیلیجنس کے ادارے نے کہا گیا ہے کہ ہم نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی صحافی جمال خشوگی کو ترکی کے شہر استنبول میں پکڑنے یا قتل کرنے کی منظوری دی تھی رپورٹ میں ایسی تین وجوہات بیان کی گئی ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا گیا ہے کہ ولی عہد نے اس آپریشن کی منظوری دی تھی جن میں انیٹلی جنس سمیت 2017 کے بعد سے ریاست میں فیصلہ سازی پر ولی عہد کا کنٹرول‘ان کی حفاظت پر معمور ایک مشیر کا اس آپریشن میں براہ راست ملوث ہونا اورولی عہد کی جانب سے بیرون ملک مقیم مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے پرتشدد اقدامات کی حمایت کرنے جیسے الزامات شامل ہیں.

یاد رہے کہ اس سے پہلے سعودی حکام نے کہا تھا کہ سعودی ایجنٹس کی ایک ٹیم کو جمال خشوگی کو سعودی عرب لانے کے لیے بھیجا گیا تھا اور اس کارروائی کے دوران صورت حال بگڑ جانے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئے سعودی عرب کی ایک عدالت نے اس قتل کے جرم میں پانچ اہلکاروں کو موت کی سزا سنائی تھی لیکن گذشتہ سال ستمبر میں ان کی سزا میں کمی کر کے اس کو 20 سال قید میں بدل دیا گیا تھا.

رپورٹ میں ان افراد کے نام لیے گئے ہیں جن پر خاشقجی کے قتل کا الزام یا ذمہ داری ڈالی گئی ہے لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ انہیں نقصان پہچانے کی منصوبہ بندی میں ملوث لوگ کس حد تک اس میں آگے بڑھے 2019 میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی ایگنس کلامارڈ نے سعودی عرب پر الزام عائد کیا کہ اس نے جان بوچھ کر خشوگی کو مارنے کی اجازت دی اور انہوں نے سعودی عدالت کی کارروائی کو انصاف کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا.

جمال خشوگی کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ کو شائع کرنا امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی سعودی عرب سے امریکہ کے تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے کی پالیسی کا حصہ ہے اور وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے برخلاف سعودی عرب کے بارے میں زیادہ سخت رویہ رکھتے ہیں ٹرمپ انتظامیہ نے اس قتل کی تفتیشی رپورٹ کو عام کرنے کے قانونی تقاضوں کو سعودی عرب سے تعلقات بہتر رکھنے کی بنیاد پر رد کر دیا تھا.

نئی امریکی انتظامیہ نے اس سلسلے میں پہلے ہی پالیسی کی سطح پر کئی اہم تبدیلیاں کی ہیں صدر بائیڈن نے یمن کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ کی حمایت ختم کر دی ہے اور سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بھی بند کر دی ہے. ان حالات کے پیش نظر ماہرین مستقبل میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی دیکھ رہے ہیں امریکی خارجہ امورکے ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ایک اہم ملک ہے مگر بائیڈن انتظامیہ اپنے یورپی اتحادیوں پر زیادہ اعتماد کرتی ہے اور اس کے لیے سعودی عرب سے زیادہ اپنے یورپی اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات اہم ہیں جو انسانی حقوق جیسے امور کے معاملے میں انتہائی حساس ہیں .

ماہرین کا ماننا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے شدید اور جذباتی ردعمل آسکتا ہے چونکہ سعودی ایسے معاملات میں بہت زیادہ حساس ہیں اور ممکنہ طور پر ریاض کا جھکاﺅ ماسکو اور بیجنگ کی جانب ہوسکتا ہے ایسی صورتحال میں سعودی عرب میں امریکی فوجی اڈاے قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا جو1980کی دہائی سے قائم ہیں اس کے علاوہ امریکا کے بحری بیڑوں کو بھی سعودی عرب کے پانیوں میں آزدانہ نقل وحرکت کی اجازت ہے .

تاہم بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب پر انحصار کم کرکے خطے کے دیگر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے جن میں متحدہ عرب امارات اور قطر سرفہرست ہیں اس کے علاوہ براعظم افریقہ میں روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے امریکا اور اس کے یورپی اتحادی پریشان ہیں لہذا وہ براعظم افریقہ میں اپنی موجودگی کا اظہار بھرپور طریقے سے کرنا چاہتے ہیں .