پائیدار ترقی کیلئے علاقائی تعاون ناگزیر ہے، سی پیک کے ذریعے افغانستان سمیت مشرق وسطیٰ تک رسائی اہمیت کی حامل ہے،

افغان امن عمل خطہ کی پائیدار ترقی میں معاون ثابت ہو گا، وزیراعظم عمران خان کا ای سی او کے 14ویں سربراہ اجلاس سے ورچوئل خطاب

جمعرات 4 مارچ 2021 18:06

پائیدار ترقی کیلئے علاقائی تعاون ناگزیر ہے، سی پیک کے ذریعے افغانستان ..
اسلام آباد۔4مارچ  (ردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 مارچ ۔2021ء) :وزیراعظم عمران خان نے اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے رکن ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کیلئے 6 نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پائیدار ترقی کے حصول کیلئے علاقائی تعاون ناگزیر ہے، ہمیں اپنے جغرافیائی محل وقوع، اقتصادی اثاثوں اور سیاسی روابط سے فائدہ اٹھانا ہو گا، کورونا جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے صحت کے شعبہ کو مزید ترقی دینا ہو گی، سی پیک کے ذریعے افغانستان سمیت مشرق وسطیٰ تک رسائی اہمیت کی حامل ہے، پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے درمیان ریلوے رابطہ سے تجارت کے فروغ میں مدد ملے گی، کورونا وبا سے بچائو کیلئے عالمی سطح پر ویکسین کی مساویانہ فراہمی ضروری ہے، افغان امن عمل خطہ کی پائیدار ترقی میں معاون ثابت ہو گا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو ای سی او کے 14ویں سربراہ اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو اقتصادی تعاون تنظیم کے 14ویں سربراہ اجلاس کیلئے کرسی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ ای سی او کا آئندہ اجلاس ترکمانستان میں ہو گا۔ وزیراعظم نے صدر الہام علیوف کو بھی آذربائیجان کے مقبوضہ علاقے آزاد کرانے پر بھی مبارکباد دی۔

وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وبا کی وجہ سے ای سی او کے رکن ممالک صحت اور معیشت کے شعبہ میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح شدید متاثر ہوئے ہیں، مجموعی طور پر  15 کروڑ افراد کو اس وبا نے اپنی لپیٹ میں لیا اور 25 لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے، دنیا کو کورونا کی وجہ سے مختلف قسم کے چیلنجوں کا سامنا ہے، ترقی پذیر ممالک اس وبا کی وجہ سے بہت شدید متاثر ہوئے ہیں اور ہماری معیشت کو نقصان پہنچا ہے، تجارت میں کمی ہوئی ہے اور غربت بڑھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ای سی او سربراہ اجلاس کا مقصد علاقائی اقتصادی ترقی کے حوالہ سے لائحہ عمل پر غور کرنا ہے، کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والے سماجی و معاشی مضمرات کا مکمل تخمینہ لگانا ابھی باقی ہے، پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں اپنے عوام کو وائرس کا نشانہ بننے اور بھوک سے بچانا ہو گا اور اپنے عوام کو ایک طرف بھوک اور دوسری طرف موت سے بچانے کیلئے اقدامات ناگزیر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ معاشی مشکلات کے باوجود ہماری حکومت نے غیر معمولی اقدامات کئے۔ اس کے علاوہ معیشت کے استحکام، لوگوں کی زندگیاں بچانے اور روزگار کو برقرار رکھنے کیلئے معاشرہ کے غریب ترین افراد اور چھوٹے کاروبار کیلئے احساس پروگرام کے تحت 8 ارب ڈالر کی نقد مالی معاونت اور سبسڈیز فراہم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وبا ابھی موجود ہے، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہمارے  غریب عوام کو ویکسین تک رسائی ہو، پاکستان میں کورونا وبا سے بچائو کیلئے ویکسین کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے لیکن اس وقت یہ صرف فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو فراہم کی جا رہی ہے، ہمیں کورونا وبا کے معیشت پر اثرات سے بھی نمٹنا ہے، کورونا وبا سے بچائو کیلئے عالمی سطح پر ویکسین کی مساویانہ فراہمی ضروری ہے، جب تک تمام لوگ محفوظ نہیں ہوں گے کوئی محفوظ نہیں ہو گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وبا کی وجہ سے عالمی معیشت تنزلی کا شکار ہوئی ہے اور  امیر ملکوں نے کورونا وبا سے بچائو کیلئے وسائل کا استعمال کیا اور مجموعی طور پر 20 ٹریلین ڈالر کے پیکیج دیئے ہیں، ہماری معیشت بھی کورونا وبا سے اسی طرح متاثر ہوئی ہے لیکن ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وبا سے متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک کو صورتحال سے نمٹنے میں مدد کیلئے وہ پہلے ہی پانچ نکاتی پلان پیش کر چکے ہیں  جس میں قرضوں میں ریلیف، رعایتی مالی وسائل کی فراہمی، کلائمیٹ فنانس کی فراہمی اور ترقی پذیر ممالک سے لوٹی گئی دولت امیر اور اس لحاظ سے محفوظ تصور کئے جانے والے ممالک سے واپسی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال غریب ممالک سے ایک ٹریلین ڈالر امیر اور محفوظ تصور کئے جانے والے ممالک کو منتقل ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کے صحت اور معیشت پر اثرات کے علاوہ مذہبی منافرت بھی سامنے آئی ہے، دنیا کے مختلف ممالک اور ہمارے ہمسائے میں یہ صورتحال رہی ہے کہ مقبوضہ وادی میں حق خود ارادیت کیلئے جدوجہد کرنے والے افراد کو کورونا وبا کی آڑ میں دیوار سے لگایا گیا اور مظالم بڑھا دیئے گئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے، دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا مسلمانوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے، اسی طرح آزادی اظہار کی آڑ میں حضور اکرمۖﷺ کی شان میں گستاخی کو بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا، اسلامو فوبیا کے تدارک کیلئے پاکستان اور ترکی مل کر کاوشیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کے حصول کیلئے علاقائی تعاون ناگزیر ہے، ای سی او ممالک کی آبادی دنیا کا نصف ہے اور یہ 80 لاکھ مربع میل پر پھیلے ہوئے ہیں، ای سی او ممالک مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کو آپس میں ملاتے ہیں، ای سی او ممالک وسائل سے مالا مال ہیں اور یہ ممالک سب سے زیادہ پیداوار اور کھپت کے حامل ممالک بن سکتے ہیں، ہمارا مشترکہ ورثہ اور ثقافت، البیرونی، فارابی، مولانا رومی اور علامہ اقبال ہمیں ای سی او کے تحت آگے بڑھنے کیلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں، وژن 2025ء کے تحت ای سی او ممالک نے تجارت، معیشت، توانائی، زراعت، سیاحت اور صنعتی ترقی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کا ایجنڈا ترتیب دیا ہے، ہمیں اس سلسلہ میں ہونے والی پیشرفت کا وسط مدتی جائزہ لینا ہو گا اور عملدرآمد کی رفتار تیز کرنا ہو گی اور تعاون کا دائرہ مزید وسیع کرنا ہو گا، ہمیں جغرافیائی محل وقوع، اقتصادی اثاثوں اور سیاسی روابط سے فائدہ اٹھانا چاہئے، بنیادی ڈھانچہ کو ترقی دینا ہو گی، اقتصادی سرگرمیاں پیدا کرنا ہوں گی اور تجارت بڑھانا ہو گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن اس سلسلہ میں پیشرفت کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، بین الافغان مذاکرات کی کامیابی پائیدار ترقی کیلئے معاون ثابت ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں کورونا وبا کی وجہ سے صحت اور معیشت کے شعبوں کو ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، اس مقصد کیلئے درکار قومی اور بین الاقوامی وسائل بروئے کار لائے جانے چاہئیں، ای سی او ممالک میرے پانچ نکاتی ایجنڈے کی حمایت کریں، ہمیں صحت کا ایک مضبوط نظام وضع کرنا ہو گا جو مستقبل میں اس طرح کے بحرانوں سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو اور ہمیں متعددی اور دیگر امراض کے علاج کیلئے طبی آلات اور ادویات کی تیاری کو یقینی بنانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ای سی او ممالک کے درمیان تجارت کیلئے ٹرانسپورٹ کا جامع نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، اسلام آباد۔استنبول۔تہران کارگو ٹرین کے ساتھ ساتھ ازبکستان۔ افغانستان۔پاکستان ریلوے رابطہ علاقہ میں ترقی کیلئے اہم ہے،   سی پیک کے ذریعے افغانستان سمیت مشرق وسطیٰ تک رسائی اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاپی اور کاسا۔1000 جیسے ایسے منصوبے  جن پر ای سی او ممالک پہلے ہی اتفاق کر چکے ہیں انہیں آگے بڑھانے اور ای سی او انویسٹمنٹ ایجنسی کے قیام کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری باہمی تجارت مجموعی تجارت کا صرف 8 فیصد ہے اسے 10 گنا بڑھانا چاہئے اور تجارت کے فروغ کیلئے سرحدی امور کو آسان بنایا جانا چاہئے تاکہ بین العلاقائی تجارت کو فروغ مل سکے، ای سی او ٹریڈ ڈویلپمنٹ بینک سمیت علاقہ میں تجارت کے فروغ کیلئے ای سی او ٹریڈ ایگریمنٹ کو فعال بنایا جانا چاہئے، ہمیں علم پر مبنی معیشت کو فروغ دینا ہو گا اور ڈیجیٹلائزیشن اور بالخصوص براڈ بینڈ کو وسعت دینا ناگزیر ہے، ای سی او نے وژن 2025ء کے تحت دوسری علاقائی عالمی تنظیموں کے ساتھ بات چیت کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے، ہمیں آسیان، یورپی یونین اور افریقن یونین جیسے کامیاب ماڈلز کو اپنانا ہو گا، پاکستان ای سی او وژن 2025ء پر عملدرآمد کیلئے مکمل تعاون کرے گا۔