صرف عورت آزادی مارچ یا کوئی عملی کام بھی؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 7 مارچ 2021 16:00

صرف عورت آزادی مارچ یا کوئی عملی کام بھی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 مارچ 2021ء) خواتین کا عالمی دن قریب آنے کے ساتھ ہی عورت آزادی مارچ کا موضوع سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی عورت مارچ کو لے کر سوشل میڈیا پر جنگ جاری ہے۔ جن خواتین و حضرات نے بحث و مباحثہ شروع کررکھا وہ ’’میرا جسم میری مرضی، میک اپ، کھانا پکانا، گھر کے کام کاج‘‘ جیسے موضوعات سے باہر نکل ہی نہیں رہے اور اس بحث کا حاصل بس ’’ہمارا کتا، کتا اور آپ کا کتا ٹامی‘‘ ہی رہتا ہے۔

عورت آزادی مارچ کی تیاریوں کو دیکھ کر میرے ذہن میں بھی کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آخر اس مارچ کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ گزشتہ دو تین سالوں سے نکالا جانے والا عورت مارچ کیا واقعی خواتین کے حقوق انہیں دلوا سکا؟

یہاں میری خواتین کے حقوق سے مراد ان کا عزت واحترام، ذہنی اور جسمانی تشدد سے محفوظ رکھنا، تعلیم حاصل کرنے کا حق، ان کے عزت نفس کی خیال، رائےکا احترام، اپنی پسند اور نا پسند کا حق رکھنا، کام کی مکمل اجرت ملنا وغیرہ شامل ہیں۔

(جاری ہے)

خواتین کے حقوق اور مسائل کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے اس حقیقت سے انکار نہیں۔ لیکن یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ کیا اب تک عورت مارچ ریلیوں سے متاثرہ خواتین کو کوئی فائدہ پہنچا؟ کیا عورت مارچ سے جو بچیاں تعلیم سے محروم ہیں ان کے خاندان انہیں اسکول بھیجنا شروع ہو گئے؟ کیا اب بچیاں ونی، کاروکاری اور سوارا نہیں کی جا رہیں؟ کیا جن خواتین پر تشدد کیا جاتا تھا اب ان پر نہیں کیا جا رہا؟ کیا خواتین کو کام کی جگہ پر مردوں کے برابرحقوق اور تنخواہیں دی جانے لگیں ہیں؟ کیا محنت کش مزدور خواتین کو اس مہنگائی کے دور کے مطابق اجرت دی جانے لگی ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب اس لیے بھی ضروری ہیں کہ کسی بھی کام کو شروع کرنے کے بعد اس کے نتائج سے ہی ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کتنا کامیاب رہا۔

خواتین کے مساوی حقوق کی بات کرتے ہوئے ہم ایک بات بھول جاتے ہیں اور وہ یہ کہ تعلیم کے ساتھ معاشرہ بالخصوص مردوں کی آگاہی اور ان میں شعور بیدار کرنا بہت ضروری ہے۔ میں نے مردوں کی آگاہی اور شعور کی بات اس لیے کی ہے کیونکہ جب تک مردوں کو خواتین کا حق دینے کے ساتھ عزت و احترام کے لیے آمادہ یا متحرک نہیں کیا جاتا تب تک معاشرہ بھی مہذب نہیں بن سکتا۔

یہ بات بھی ہم خواتین کو سمجھنا ضروری ہے کہ تمام مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع نہ کردیں ورنہ جو باشعور حضرات ہیں وہ بھی آپ کے نکتہ نظر کو سمجھ نہیں پائیں گے اور اصلاح کبھی بھی سخت زبان کے استعمال سے ممکن نہیں۔ عورت آزادی مارچ کی ریلیوں میں مرد حضرات کو اگر وِلن بنا کر ان پر تنقید کے نشتر چلائے جائیں گے تو یقین جانیے معاشر ےمیں درستگی نہیں مزید بگاڑ آئے گا، آپ کے موقف کو غلط بھی سمجھا جائے گا اور ہو سکتا ہے یہی عورت آزادی مارچ عام خواتین کے لیے مزید مسائل کا سبب بن جائے۔

ایک بات قابل غور ہے کہ عورت مارچ کی قیادت کرنے والی وہی خواتین ہیں جو مکمل آزاد اور اپنے خاندان اور معاشرے کی جانب سے حقوق کو انجوائے کر رہی ہیں۔ میں ان کے خلاف نہیں۔ یہ پڑھی لکھی باشعور خواتین ہیں۔ جو مظلوم خواتین کے حقوق کی پاسداری کے لیے آواز اٹھاتی ہیں۔ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن کیا آواز اٹھانا ہی کافی ہے؟ کوئی عملی کام کیوں نہیں کیا جاتا؟

حیدرآباد کی رنگ برنگی، دلکش، کھنکتی کانچ کی چوڑیاں پورے پاکستان میں مقبول ہیں۔

اس شعبے سے منسلک خواتین کے حوالے سے آپ کو مختلف میڈیا رپورٹس ملیں گی۔ خواتین کی خوبصورت کلائیوں کے لیے یہ مزدور خواتین جب کانچ کی چوڑیاں بناتی ہیں تو بھٹے کے شعلے اِن خواتین کی انگلیاں اور انگھوٹے کی کھال جلا دیتے ہیں۔ ان مزدور خواتین کو 25درجن چوڑیاں بنانے کے 70 روپے ملتے ہیں۔ اور دیہاڑی کے 350 روپے دیے جاتے ہیں۔ ہے نہ حیران کن بات؟ جبکہ حکومت نے مزدور کی ماہانہ اجرت 17,500 روپے مقرر کر رکھی ہے جو یومیہ 583 بنتی ہے۔

عورت آزادی مارچ کے لیے خواتین مہنگے اور مشہور برانڈز کے کپڑے بنارہی ہیں۔ کیا وہ جانتی ہیں کہ اس لباس کو بنانے کے لیے برانڈ کے مالک نے اپنے ہاں کام کرنے والی غریب خواتین کو کتنا معاوضہ دیا؟ خود اس مارچ میں ملبوسات بنانے والے مشہور ڈیزائنرز موجود ہوں گے، کیا وہ ریلی کے شرکا کو بتائیں گے کہ وہ اپنے ہاں ملازمت کرنے والی خواتین کو کتنی اجرت دیتے ہیں؟

خیبر پختونخوا میں نجی اسکولوں میں گریجویٹ خواتین اساتذہ کی تنخواہ تین سے تین سے چار ہزار روپے ماہانہ ہے جبکہ ماسٹرز خواتین اساتذہ کو سات، آٹھ ہزار روپے مہینہ تک تنخواہ دی جاتی ہے۔

کرک میں خواتین پہاڑوں سے جھاڑیاں چن کر ٹوکریاں بناتی ہیں جنہیں پچائے یا یشکور کہا جاتا ہے۔ ان سے فی ٹوکری 250 یا 300 روپے میں خرید کر مارکیٹ میں700 تک بیچی جاتی ہے۔ نوکری چلی جانے کے خوف کے باعث یہ خواتین آواز بھی نہیں اٹھاتیں اور نہ کوئی ان خواتین کی مشکل حل کرنے کے لیے عملی کام کرتا ہے۔

اس لیے صنفی مساوات حاصل کرنے کے لیے صرف قوانین میں ہی تبدیلی کی ضرورت نہیں بلکہ قوانین کو بامقصد طریقے سے لاگو کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے لیے باشعور سیاسی اور سماجی کارکنان، مختلف اداروں میں اعلٰی عہدوں پر فائز خواتین اور مردوں کی قیادت کو سامنے آنا ہو گا تاکہ معاشرے میں رچے بسے ثقافتی معمولات اور رویوں میں تبدیلی لائی جاسکے۔

اب صرف باتوں یا مارچ سے نکل کر کچھ عملی کام کر کے دکھانا ہو گا۔