سربراہ براڈ شیٹ کمیشن جسٹس (ر) عظمت سعید کا حکومت سے لاکھوں روپے تنخواہ اور دیگر مراعات نہ لینے کا فیصلہ

کابینہ ڈویژن کی جانب سے براڈ شیٹ کمیشن کے سربراہ کی تنخواہ سے متعلق سمری ارسال، جسٹس ریٹائرڈ شیخ عظمت سعید نے بطور سربراہ براڈ شیٹ کمیشن تنخواہ اور مراعات لینے سے انکار کردیا

Danish Ahmad Ansari دانش احمد انصاری منگل 9 مارچ 2021 01:01

سربراہ براڈ شیٹ کمیشن جسٹس (ر) عظمت سعید کا حکومت سے لاکھوں روپے تنخواہ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 08 مارچ 2021ء) سربراہ براڈ شیٹ کمیشن جسٹس (ر) عظمت سعید نے حکومت سے لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات لینے سے انکار کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق کابینہ ڈویژن نے براڈ شیٹ کمیشن کے سربراہ کی تنخواہ سے متعلق سمری بھجوائی تھی، تاہم جسٹس ریٹائرڈ شیخ عظمت سعید نے بطور سربراہ براڈ شیٹ کمیشن تنخواہ اور مراعات لینے سے انکار کردیا ہے۔

اس حوالے سے عظمت سعید نے حکومت کو خط بھی ارسال کر دیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تنخواہ یا کسی قسم کی مراعات کی ضرورت نہیں ہے۔ جسٹس (ر) عظمت سعید کی طرف سے لکھے گئے خط کی کاپی وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو بھی ارسال کر دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے براڈشیٹ معاملے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ شیخ عظمت سعید کو سپریم کورٹ کے جج کے برابر تنخواہ اور مراعات دینے کا فیصلہ کیا تھا، اس سلسلے میں کابینہ ڈویژن نے سمری بھی وفاقی کابینہ کو بھجوا دی تھی۔

(جاری ہے)

سمری میں وفاقی کابینہ سے جسٹس ریٹائرڈ شیخ عظمت سعید کو سپریم کورٹ کے جج کے برابر تنخواہ اور مراعات دینے کی اجازت طلب کی گئی تھی، سمری میں کہا گیا ہے کہ پہلے بنائے گئے کمیشنز کی سربراہی حاضر سروس افسران کرتے تھے اس لیے تنخواہوں اور الاؤنس کا مسئلہ نہیں ہوا، قواعد کے مطابق ریٹائرڈ جج یا افسر کی تعیناتی پر ان کی سابقہ تنخواہ دی جاتی ہے، کمیشن کی جانب سے کوئی اور رکن تعینات کیا گیا تو اس پر بھی یہی رولز لاگو ہوں گے۔

آج وفاقی کابینہ کی جانب سے جسٹس ریٹائر شیخ عظمت سعید کی تنخواہ و مراعات سے متعلق ملنے والی سمری کی باضابطہ منظوری متوقع تھی، لیکن اب عظمت سعید نے حکومت سے تمام تر مراعات اور تنخواہ لینے سے انکارکر دیا ہے۔ خیال رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں نیب نے 2000 میں برطانوی کمپنی براڈشیٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت کمپنی کو 200 سیاسی رہنماؤں، سرکاری افسران، فوجی حکام اور دیگر کے نام دیے گئے تھے، جن کی بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔

28 اکتوبر 2003 میں نیب نے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دیا۔براڈ شیٹ نے پاکستانی حکومت کے خلاف برطانیہ میں ثالثی کا مقدمہ جیتا۔ عدالتی حکم پر کمپنی کے مالک کاوے موسوی کو برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانے کے بینک اکاؤنٹ سے لگ بھگ 29 ملین ڈالر کی رقم ادا کی گئی۔ اپوزیشن اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ پر مشتمل ایک رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا گیا۔