سیاسی قیادت آئینی اختیارات اور استحقاق استعمال کرکے تنازعات کو حل کرے

پی ڈی ایم کے پاس چیئرمین سینیٹ کیلئے اکثریت موجود ہے، پی ڈی ایم اکثریت کے ساتھ چیئرمین سینیٹ کو نہ صرف ہٹا سکتی ہے بلکہ گیلانی کو چیئرمین بھی بنا سکتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا یوسف رضا گیلانی کی درخواست پر فیصلہ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ بدھ 24 مارچ 2021 18:39

سیاسی قیادت آئینی اختیارات اور استحقاق استعمال کرکے تنازعات کو حل ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 مارچ2021ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سیاسی قیادت آئینی اختیارات اور استحقاق استعمال کرکے تنازعات کو حل کرے، پی ڈی ایم کے پاس چیئرمین سینیٹ کیلئے اکثریت موجود ہے، پی ڈی ایم اکثریت کے ساتھ چیئرمین سینیٹ کو نہ صرف ہٹا سکتی ہے بلکہ گیلانی کو چیئرمین بھی بنا سکتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف یوسف رضا گیلانی کی درخواست پر فیصلہ جاری کردیا، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پرمحفوظ فیصلہ سنایا، عدالت نے یوسف رضا گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 13صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے، چیئرمین سینیٹ الیکشن سے متعلق یوسف رضا گیلانی کی درخواست مسترد کی جاری ہے۔

(جاری ہے)

فیصلے میں کہا گیا کہ توقع ہے منتخب نمائندے اور سیاسی قیادت عدالت کو ملوث کیے بغیرتنازعات حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ درخواستگزارکے مطابق پی ڈی ایم کے پاس چیئرمین سینیٹ کیلئے اکثریت موجود ہے۔ آئین میں دیے اختیارات اور استحقاق کے ذریعے سیاسی قیادت اپنے تنازعات کو حل کرے۔ یہ عدالت پارلیمان کے استحقاق سے متعلق آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے۔

اکثریت ہے تو پی ڈی ایم نہ صرف چیئرمین سینیٹ کو ہٹا سکتی ہے بلکہ گیلانی کو چیئرمین  بنا بھی سکتی ہے۔ ارکان سینیٹ کا یہ طریقہ استعمال کرنے سے پارلیمان کی عزت اور خودمختاری میں اضافہ ہوگا۔ آئینی طریقہ کار کے استعمال سے واضح ہوجائےگا کہ ان 7 سینیٹرز نے آپ کو ووٹ دیا تھا۔ سماعت کے دوران سابق وزیراعظم کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا تھا کہ صدر نے سینیٹر مظفر حسین شاہ کو الیکشن میں پریذائیڈنگ افسر مقرر کیا عدالت نے استفسار کیا کہ چیئرمین سینیٹ الیکشن میں الیکشن کمیشن کی کوئی شمولیت نہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ چیئرمین سینیٹ الیکشن میں الیکشن کمیشن کا کوئی کردار نہیں. چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمان کی اندرونی کارروائی کے استحقاق کے آئین آرٹیکل 69 سے کیسے نکلیں گے ؟ پارلیمان کی اندرونی کارروائی عدالت میں چیلنج کی جا سکتی ہے ؟. فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر طریقہ کار میں کوئی بے ضابطگی ہو تو وہ عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکتی رولز میں بیلٹ پیپر یا ووٹ سے متعلق کچھ نہیں، رولز اس حوالے سے خاموش ہیں سیکرٹری سینیٹ نے ہدایات دیں کہ خانے کے اندر کہیں بھی مہر لگائی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شیری رحمان، سعید غنی اور میں نے بیان حلفی عدالت میں دیا ہے کہ سیکرٹری سینیٹ نے خانے کے اندر کہیں بھی مہر لگانے کا کہا تھا اور سیکرٹری سینیٹ کے کہنے کے بعد ہم نے اپنے سینیٹرز کو کہیں بھی مہر لگانے کا کہا واضح رہے کہ پیپلزپارٹی نے سینیٹ سیکرٹریٹ نے ایوان بالا کے چیئرمین کے لیے ہونے والے انتخابات کے بیلٹ پیپرز قانونی ٹیم کو فراہم کرنے کی درخواست کی تھی جسے مسترد کردیا گیا تھا‘پیپلز پارٹی کی قانونی ٹیم، جس کے ممبران میں سینیٹ کے 3 سابق چیئرمین، فاروق ایچ نائیک، رضا ربانی، نیئر حسین بخاری، پنجاب کے سابق گورنر سردار لطیف خان کھوسہ اور جاوید اقبال، شامل ہیں. پیپلزپارٹی کی قانونی ٹیم کو 12 مارچ کو ایوان بالا میں ہونے والی تمام سرگرمیوں کی مصدقہ کاپیاں اس لیے چاہیے تھیں تاکہ کسی مناسب فورم کے سامنے ووٹوں کے رد کیے جانے کو وہ چیلنج کرسکیںسینیٹ سیکرٹریٹ نے قانونی ٹیم کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے پریزائیڈنگ آفیسر کی نامزدگی کے حوالے سے وزارت پارلیمانی امور سے ہونے والے مواصلات کا ریکارڈ بھی فراہم کیا تھا۔