اے سی سی اے خواتین کوفنانس کے شعبے میں عالمی سطح پر بااختیار بنا نے کے لیے سرگرم

پیر 29 مارچ 2021 22:44

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 مارچ2021ء) دی ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس(اے سی سی ای) کی جانب سے حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ ’لیڈنگ انکلوژن: سمپل اسٹیپس اینڈ سگنیفکینٹ لیپس‘میں اے سی سی اے کی رٴْکن خواتین کے منفرد تجربات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں جن سے اٴْن کو، اپنے کیرئیر میں،پیش آنے والی رکاوٹوں اور مواقع کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔

اِن انفرادی داستانوں میں کیرئیر کے اٴْن سنگ میل کے تذکرے کو نمایاں کیا گیا ہے جوفکری غذا فراہم کرنے کے ساتھ گھریلو زندگی میں توازن سے لے کر ملازمت کے دوران ترقی سمیت موضوعات کی وسیع رینج پیش کرتی ہیں۔ پیشے میں عدم مساوات کے خطرے کے پیش نظر ان خواتین کی کہانیاں ایسی خواتین کو کیرئیر کے لیے انتہائی ضروری تحریک فراہم کرتی ہیں جو ہر جگہ فنانس کے شعبے میں اپنی پیشہ ورانہ حیثیت منوانا چاہتی ہیں۔

(جاری ہے)

اِس رپورٹ میں ابوظہبی سے لے کر زیمبیا تک ، دنیا بھر کی پیشہ ور خواتین کے منفرد خیالات کوخاص طور پر اٴْجاگر کیا گیا ہے۔ہر داستان میں گھر سے دور جانے کے موضوع سے لے کر جائے ملازمت پر مینٹور سے ملاقات تک، دنیا بھر میں فنانس اور اکاؤنٹنسی کی بڑی تصویر دیکھنے کے حوالے سے ذاتی خیالات پیش کرتی ہے۔ایسوسی ایشن کی چیف ایگزیکٹو ہیلن برانڈ او بی ای کہتی ہیں: ’’اس رپورٹ میں بیان کی گئی داستانیں، کسی بھی ایسے شخص کو تحریک فراہم کرتی ہیں جو فنانس کے شعبے میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے کیوں کہ اکاؤنٹس کے پیشے میں موجود لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا اور انہیں زندہ رہنے میں مدد فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنے اطراف میں موجود مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔

کوئی بھی شخص محنت سے نہیں بچ سکتا لیکن ایک دوسرے کو اپنے تجربات میں شریک کرنے سے ہم سب سیکھ سکتے ہیں اور ایسے حالات سے زیادہ اعتماد سے نمٹ سکتے ہیں۔ وبا نے ایسے چیلنجوں میں مزید شدت پیدا کر دی ہے جو پہلے ہی عدم مساوات کے باعث متعدد لوگوں کو درپیش تھے اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِن میں مزید شدت پیدا ہو رہی ہے۔ لہٰذا،یہی وقت ہے کہ ہم سب اپنی اپنی داستانیں بیان کریں،ایک دوسرے سے سبق حاصل کریں اور مل جل کر ، تمام لوگوں کے لیے، زیادہ منصفانہ پیشے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

‘‘ رپورٹ کے مصنف اور اے سی سی اے کے ہیڈ آف بزنس منیجمنٹ کلوئیو ویب نے کہا:’’اے سی سی اے میں شمولیت اور رسائی سب کو پہلے بھی دستیاب تھی اور اب بھی ہے۔یہ سنہ 1904ء سے اِس کی بنیادی اقدار میں شامل ہیں۔’دی لیڈنگ انکلوژن:سمپل اسٹیپس اینڈ سگنیفکینٹ لیپس‘اکاؤنٹنسی اور فنانس سے تعلق رکھنے افراد کے ساتھ اس ایجنڈے کے تعلق پر بات کرتی ہے۔

اے سی سی اے کی موجود ہ اور دنیا بھر میں مستقبل کی رٴْکن خواتین کی جانب سے متعدد داستانوں کی صورت میں لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک ایسا مقصد جو بعض اوقات ناقابل حصول معلوم ہوتا ہے ، فی الحقیقت حاصل کیا جا سکتا ہے۔ داستانوں کی یہ تالیف اِس کی حقیقی عالمی توثیق ہے۔‘‘اس رپورٹ میں جن خواتین کی داستانوں کو نمایاں جگہ ملی ہے اٴْن میں’’دریا پار کرنے والی لڑکی ‘‘کے عنوان سے شائع ہونے والی داستان کا تعلق زیمبیا کی سومبو چونڈا سے ہے جو اًب امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔

’’خواب دیکھنا مت چھوڑو‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی داستان کیمرون کی ریچیل ایگین ٹیگوی کی ہے۔’’اعداد سے الفت‘‘ نامی داستان ویتنام سے تعلق رکھنے والی تا تھی تھوئی ہینگ نے بیان کی ہے۔ملائیشیا کی سیتی فاطمہ کی داستان ’’وہ جو ہمیشہ جواب دیتی ہے‘‘کے عنوان سے شامل کی گئی ہے۔جینس وانگ ہانگ کانگ ایس اے آر سے تعلق رکھتی ہیں لیکن مین لینڈ چین میں کام کرتی ہیں۔

اِن کی داستان’’میں پیسا کمانے کو ترجیح دیتی ہوں‘‘کے عنوان سے شامل کی گئی ہے۔بارباڈز کی ڈان ولیم کی داستان’’اسٹوڈنٹس کو عملی تجربہ پہنچانا‘‘کے نام سے شامل کی گئی ہے جبکہ یونان سے تعلق رکھنے والی ایناستازیا چلکڈو کی داستان ’’میں اپنے پچھلے تمام ہیٹس پہنے ہوئے ہوں‘‘ کے عنوان سے شامل کی گئی ہے۔ ایناستاز بیلجیم میں کام کرتی ہیں۔

برطانیہ کی ایرونا بجکورتاج کی داستان کا عنوان’’میرا خواب ایک کاروباری عورت بننا تھا‘‘ ہے جبکہ بھارت کی گیتا ڈائیونکر کی داستان کاعنوان ’’اپنے ذہن میں شیشے کی چھت مت رکھیے۔‘‘ ہے۔ملائیشیا کی لوئی پئی من کی داستان کا عنوان’’باہر بہت خطرہ ہے‘‘جبکہ برطانیہ ہی کی کرسٹینا کرسٹوفورو کی کہانی کا عنوان ’’کبوتر خانہ نہیں ہوں‘‘ اور ابو ظہبی کی عائشہ الزعابی کی داستان ’’اکاونٹنٹس مسخرے ہیں’’ کے عنوان سے شائع کی گئی ہے۔