عالمی سطح پر سزائے موت میں کمی واقع ہوئی ہے، ایمنسٹی

پاکستان،بحرین، بیلا روس، جاپان، سنگاپور اور سوڈان میں 2020 کے دوران ایک بھی شخص کو موت کی سزا نہیں دی گئی،رپورٹ

بدھ 21 اپریل 2021 13:30

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اپریل2021ء) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاہے کہ دنیا بھر میں گزشتہ برس سزائے موت دینے میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم بعض ممالک میں کورونا وبا کی باوجود اس میں اضافہ ہوا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بدھ کے روز اپنی رپورٹ جاری کی ، اس کے مطابق گزشتہ برس 2020 میں موت کی سزا دینے میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق گوکہ عالمی سطح پر موت کی سزا دینے میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم کچھ ملکوں میں موت کی سزا دینے کی تعداد میں اضافہ بھی درج کیا گیا ہے۔ تنظیم کی سکریٹری اگنیس کالامارڈ کا کہنا تھاکہ بعض حکومتوں کے ذریعے سزائے موت پر مسلسل عمل کرنے کے باوجود، مجموعی طور پر سن 2020 کی تصویر مثبت تھی۔

(جاری ہے)

ان کا مزید کہنا تھاکہ سزائے موت کی معلوم شدہ تعداد میں مسلسل کمی آتی جا رہی ہے جو دنیا کو انتہائی ظالمانہ، غیر انسانی اور ہتک آمیز سزا کو تاریخ کی کتابوں میں بھیجنے کے قریب تر لا رہا ہے۔

ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں تقریبا 483 افراد کو موت کی سزا دی گئی تھی۔ ایمنسٹی کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران ایک برس میں یہ سب سے کم تعداد ہے۔ لیکن اسی دوران مصر میں موت کی سزا دینے کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا جبکہ بھارت، عمان، قطر اور تائیوان نے بھی موت کی سزائوں پر دوبارہ عمل شروع کر دیا۔امریکا میں ٹرمپ کی انتظامیہ نے تقریبا 17 برس کے وقفے کے بعد پھر سے وفاقی سطح پر موت کی سزائوں پر دوبارہ عمل شرو ع کر دیا اور اس کے تحت چھ ماہ کے دوران 10 افراد کو موت کی سزا دی گئی تھی۔

اس کے بر عکس سعودی عرب میں موت کی سزا دینے میں 85 فیصد کمی آئی۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے 184 افراد کو موت کی سزا دی تھی جبکہ 2020 میں صرف 27 افراد کے سر قلم کیے گئے۔ عراق میں بھی 2019 میں سو افراد کو موت کی سزا دی گئی تھی جبکہ گزشتہ برس صرف 45 افراد کو پھانسی دی گئی۔بحرین، بیلا روس، جاپان، پاکستان، سنگاپور اور سوڈان جیسے ممالک میں 2020 میں ایک بھی شخص کو موت کی سزا نہیں دی گئی جبکہ ان تمام ممالک نے 2019 میں موت کی سزائیں دی تھیں۔

چین، شمالی کوریا، شام اور ویتنام جیسے ممالک میں موت کی سزا کو خفیہ سرکاری معلومات کے درجے میں رکھا جا تا ہے اسی لیے ان ممالک میں ہونے والی موت کی سزاں کے اعداد و شمار کا کچھ اتہ پتہ نہیں رہتا ہے۔ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ چین ہر برس ہزاروں افراد کو موت کی سزا دیتا ہے اور اس طرح سب سے زیادہ موت کی سزائوں پر عمل چین میں ہوتا ہے۔

اس فہرست میں ایران دوسرے نمبر پر ہے جس نے 246 سے بھی زیادہ افراد کو موت کی سزائیں دیں۔ مصر تیسرے نمبر پر ہے جس نے 107 افراد کو پھانسی دی۔عراق میں 45 سے زیادہ جبکہ سعودی عرب نے 27 کو موت کی سزا دی۔ گزشتہ برس دنیا بھر میں جو موت کی سزائیں دی گئیں ہیں اس میں سے 88 فیصد ایران، مصر، عراق اور سعودی عرب میں ہوئی ہیں۔ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ایشیا بحرالکاہل خطے کے ممالک ایسے بین الاقوامی قوانین اور معیارات کی خلاف ورزیاں کرتے رہتے ہیں، جس کے تحت عمدا قتل کے علاوہ دیگر جرائم کے لیے بھی سزائے موت کے استعمال کی مخالفت کی گئی ہے۔

دنیا کے تقریبا 108 ممالک نے موت کی سزا ختم کر دی ہے جبکہ دیگر 144 ممالک نے اس پر تقریبا عمل کرنا چھور دیا ہے۔ گزشتہ برس چاڈ نے بھی موت کی سزا ترک کر دی تھی جبکہ قزاکستان اور بارباڈوس نے اس کے خاتمے کے لیے اصلاحات پر آمادگی ظاہر کی تھی۔