امریکی افواج نے افغانستان سے واپسی کی تیاریاں شروع کردیں

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 23 اپریل 2021 11:20

امریکی افواج نے افغانستان سے واپسی کی تیاریاں شروع کردیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2021ء) صدر جو بائیڈن کی حکومت کے دوران یہ انخلاء امریکا کی اب تک کی طویل ترین بیس سالہ افغانستان جنگ کا اختتام ہوگا۔ اس وقت تقریباً ڈھائی ہزار امریکی افواج اور لگ بھگ سات ہزار اتحادی فورسز جنگ زدہ ملک افغانستان میں موجود ہیں۔

امریکی وزارت دفاع کے ایک عہدیدار نے خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کو جمعرات کے روزبتایا کہ امریکی افواج نے افغانستان سے اپنے انخلاء کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔

یکم مئی کو انخلاء کے آغاز سے پہلے نہ صرف اپنا ساز و سامان واپس بھجوانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے بلکہ مقامی ٹھیکیداروں کے ساتھ اپنے معاہدے بھی ختم کرنا شروع کر دیے ہیں۔

گزشتہ برس فروری میں امریکی افواج نے اپنے چھوٹے چھوٹے اڈے بند کرنے شروع کردیے تھے۔

(جاری ہے)

رواں ماہ کے وسط میں بائیڈن انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان سے فوجیوں کے انخلاء کے حتمی مرحلے کا آغاز یکم مئی سے ہوجائے گا اور اسے گیارہ ستمبر تک مکمل کرلیا جائے گا۔

فوج کے انخلاء میں ابھی کچھ وقت لگے گا

امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کے بعد سے ہی امریکی فوجی اپنا ساز و سامان واپس بھیج رہے ہیں اور کوڑ اکرکٹ اٹھانے اور دیکھ بھال جیسے کاموں کے لیے مقامی ٹھیکیداروں کے ساتھ اپنے معاہدے ختم کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گوکہ تیاریاں ہو رہی ہیں لیکن آئندہ چند ہفتوں تک وہاں سے فوج کے انخلاء کا عمل شروع نہیں ہوگا۔

”ہمیں نہیں لگتا کہ جب تک بقیہ فوجی اڈے بھی بند نہیں ہو جاتے اس وقت تک فوجیوں کی تعداد میں کوئی کمی ہوگی۔"

ایسے اشارے ملے ہیں کہ انخلاء کا عمل گیارہ ستمبر سے قبل ہی مکمل ہو جائے گا۔ اس سال گیارہ ستمبر کو امریکا پر القاعدہ کے حملے کے بیس برس مکمل ہو جائیں گے۔ اسی حملے کے نتیجے میں امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کر دی تھی۔

ادھر جرمنی کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں اس بات پر صلاح و مشورہ جاری ہے کہ بین الاقوامی افواج کی افغانستان سے واپسی کا عمل چار جولائی تک مکمل کر لیا جائے۔

پنٹاگون نے گزشتہ جمعے کو کہا تھا کہ امریکا مختصر وقت کے لیے افغانستان میں اپنی فوج کی تعداد میں اضافہ کر سکتا ہے۔ یہ اضافی فوجی امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء اور ساز وسامان کو سمیٹنے میں مدد کریں گے۔

امریکی فوجی عہدیدار کا کہنا تھا کہ حالانکہ بیشتر فوجی سازو سامان کو فضائی راستے سے واپس بھیجا جائے گا لیکن امریکی فوج پاکستان اور وسطی ایشیا کے زمینی راستے بھی استعمال کرے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے سامان جو نہ تو واپس بھیجے جائیں گے اور نہ ہی افغان قومی سلامتی فورسز کے حوالے کیے جائیں گے انہیں ٹھیکیداروں کو فروخت کردیا جائے گا جو اسے مقامی مارکیٹ میں بیچیں گے۔ انہوں نے کہا ”بہت ممکن ہے آج یہ سازو سامان اسکریپ کے طورپر بازاروں میں دیکھیں۔"

طالبان کا کوئی ردعمل نہیں

دریں اثنا ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق طالبان نے انہیں اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ آیا وہ واپس لوٹنے والے امریکی اور نیٹو افواج پر حملے کریں گے یا نہیں؟

طالبان کے ترجمان محمد نعیم کا کہنا تھا ”یہ بات قبل از وقت ہے اور مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

"

گزشتہ برس سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت امریکی افواج کو یکم مئی تک افغانستان سے پوری طرح نکل جانا تھا۔ اس معاہدے کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی اور نیٹو کے افواج پر حملے نہیں کریں گے لیکن انہوں نے بعد میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر واشنگٹن یکم مئی کی مقررہ تاریخ تک اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتا ہے تو اسے ”نتائج" کا سامنا کرنا پڑے گا۔

افغان فوج کے لیے مشکلات

امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کی مکمل واپسی سے یقینی طور پر افغان فوج کو زبردست نقصان پہنچے گا۔

امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکینزی نے جمعرات کے روز امریکی کانگریس کو بتایا کہ انہیں کابل میں امریکی سفارت خانے کی حفاظت کے حوالے سے افغان حکومت کی صلاحیتوں پر تشویش ہے۔

انہوں نے کہا ”مجھے اس بات پر تشویش ہے کہ افغان فورسز کی زمینی گرفت کتنی ہے اور کیا وہ امریکا کے تعاون اور مالی امداد کے بغیر اپنے طیارے فضا میں اڑا سکیں گے۔" انہوں نے کہا کہ ہمیں طیاروں کے رکھ رکھاو کے لیے ان کی مدد کرنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔

جرمنی مدد کے لیے تیار

جرمنی کے دو وفاقی وزراء نے کہا ہے کہ افغانستان سے بین الاقوامی فورسز کی واپسی کے بعد بھی جرمن حکومت افغانستان کی مدد جاری رکھنا چاہتی ہے۔

وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا”فوجی کارروائی ہمارے وعدوں کا صرف ایک جز تھا۔ ہم مستقبل میں بھی اس ملک کو شہری امداد جاری رکھیں گے کیونکہ افغان شہریوں کے لیے اچھا اور محفوظ ماحول فراہم کرنا یورپ کے مفاد میں ہے۔"

ًترقیات کے وزیر گرڈ میولر نے بھی ”نئے ضابطوں اور سخت شرائط" کے ساتھ شہری ترقیات کے لیے امداد جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)