ایران نے سعودی ولی عہد کے بیان کا خیرمقدم کیا

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 30 اپریل 2021 12:20

ایران نے سعودی ولی عہد کے بیان کا خیرمقدم کیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 اپریل 2021ء) ایران کی خبر رساں ایجنسی آئی ایس این اے کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب اسلامی دنیا کے دو اہم ممالک ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خطے میں امن اور استحکام کی قیادت کرسکتے ہیں۔

سعودی عرب کے ولی عہد شہزاد ہ محمد بن سلمان نے اس ہفتے کے اوائل میں ایک انٹرویو میں ایران کے حوالے سے مفاہمتی لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا”ایران ہمسایہ ملک ہے اور ہم ایران کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

‘‘

سعودی ولی عہد نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے خطے اور دنیا میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

سعودی بیان کا خیرمقدم

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ایران سعودی عرب کے لہجے میں تبدیلی کا خیر مقدم کر تا ہے۔

انہوں نے کہا"ایران اور سعودی عرب خطے اور اسلامی دنیا کے دو اہم ممالک ہیں اور تعمیری خیالات اور مذاکرات پر مبنی طریقہ کار سے بات چیت اور معاونت کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔"

خطیب زادہ کا کہنا تھا ''اختلافات کے خاتمے سے امن، استحکام اور علاقائی ترقی کو فروغ ملے گا۔"

اس سے قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایران کے ساتھ تعلقات خراب کریں، اس کے برعکس ہم چاہتے ہیں کہ ایران ترقی کرے۔

ہمارے مفادات ایران سے اور ایران کے سعودی عرب سے وابستہ ہیں۔ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دے کر ہم خطے اور دنیا کو ترقی اور خوشحالی کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔

لہجے میں تبدیلی

سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کو دیرینہ دشمن سمجھتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک علاقائی برتری حاصل کرنے کے لیے ایک عرصے سے بالواسطہ طور پر باہم متحارب ہیں۔

سن 2016 میں ایک معروف شیعہ عالم دین کو سعودی حکومت کی طرف سے سزائے موت دیے جانے کے بعد ایرانی مظاہرین کے سعودی سفارتی مشنوں پر ہونے والے حملے کے بعد سعودی عرب نے ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیے تھے۔

تاہم حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے لہجے میں تبدیلی دکھائی دی۔ ایران کے حوالے سے شہزادہ محمد بن سلمان کے لہجے میں یہ تبدیلی ان کے سابقہ رویے سے یکسر مختلف ہے، جس میں وہ تہران کو علاقائی عدم استحکام کو ہوا دینے کے لیے مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔

فائنانشیل ٹائمز نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ عراقی وزیر اعظم مصطفی الخادمی کے تعاون سے ریاض اور تہران کے درمیان بغداد میں 9 اپریل کو ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ عراقی حکومت کے ایک عہدیدار نے بھی ان مذاکرات کی تصدیق کی تھی جبکہ ایک مغربی سفارت کا کہنا تھا کہ انہیں ”تعلقات کو بہتر بنانے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ثالثی'' کے بارے میں ”پیشگی اطلاع"دی گئی تھی۔

ریاض نے سرکاری طورپر اس طرح کی کسی بات چیت کی تردید کی تھی تاہم ایران نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور ایک مختصر بیان میں کہا کہ تہران سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کا ”ہمیشہ خیر مقدم'' کرتا ہے۔

یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب خطے میں کئی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔

عمران خان کا بیان

دریں اثنا پاکستان کے وزیرا عظم عمران خان نے بھی سعودی عرب کے ایران کے ساتھ امن کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس اعتماد کا اظہا ر کیا اس سے مسلم امہ مضبوط ہوگی۔

ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک اور سعودی عرب ہمارا قریبی دوست ہے اور اس اقدام سے مسلم امہ مضبوط ہوگی۔

ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)