این اے 249 میں ہونے والی دوبارہ ووٹوں کی گنتی کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں ،سعید غنی

چند گھنٹوں کے بعد اسلام آباد سے دوبارہ گنتی کے احکامات آنا اس کے پس پشت کچھ ضرور ہے،وزیر تعلیم سندھ

بدھ 5 مئی 2021 23:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 مئی2021ء) وزیر تعلیم و محنت سندھ و صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سعید غنی نے کہا کہ ہم حلقہ این اے 249 میں ہونے والی دوبارہ ووٹوں کی گنتی کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یکم مئی کو آر او کی جانب سے پہلے 9 بجے مفتاح اسماعیل کی دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد ہونے کے بعد 11 بجے کنسولیڈیشن کا وقت دینے کے باوجود اس کو نہ کیا جانا اور چند گھنٹوں کے بعد اسلام آباد سے دوبارہ گنتی کے احکامات آنا اس کے پس پشت کچھ ضرور ہے۔

ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اسلام آباد سے آر او کو کنسولیڈیشن سے روکا گیا ہے کیونکہ قانون کے مطابق اگر کنسولیڈیشن ہوجائے تو پھر دوبارہ گنتی کا عمل نہیں ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ نون کی جانب سے جو الزامات عائد کئے گئے ہے اس حلقہ میں پولنگ کے حوالے سے وہ کوئی ٹھوس نہیں ہیں۔ انہوںنے 167 پولنگ اسٹیشن کے نتائج پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط نہ ہونے کا کہا ہے، جس میں سے 117 پر پیپلز پارٹی کو شکست ہوئی ہے۔

جن 27 پولنگ اسٹیشن کے فارم 45 کو ان کے متعلقہ آر اوز نے واٹس اپ نہیں کیا اس میں بھی 20 پر پیپلز پارٹی کو شکست ہوئی ہے۔ ہم دوبارہ گنتی کے فیصلے کو کسی عدلیہ میں چیلنج نہیں کریں گے اور ہم 6 مئی کو گنتی کے عمل کا حصہ بنیں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے بدھ کے روز سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری وقار مہدی، حلقہ این اے 249 سے کامیاب امیدوار قادر خان مندوخیل ، نجمی عالم، سابق صوبائی وزیر و جنرل سیکرٹری پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن جاوید ناگوری اور دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔

سعید غنی نے کہا کہ کل اسلام آباد میں الیکشن کمیشن نے حلقہ این اے 249 میں دوبارہ گنتی کاحکم دیاہے۔ انہوںنے کہا کہ دوبارہ گنتی کاپانچ فیصد ووٹس یاکسی ایک پولنگ کی درخواست دے سکتاہے۔ انہوںنے کہا کہ مفتاح اسماعیل نے الیکشن والے روز رات ڈھائی بجے ایک درخواست آر او کو دی اور اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ جو قابل منظور ہو اور اسی لئے آر او نے وہ درخواست یکم مئی کی صبح یہ کہہ کر مسترد کردی کہ ایک تو میرے پاس پورے حلقہ کی دوبارہ ووٹوں کی گنتی کا اختیار نہی ہے اور دوسرا درخواست میں کسی ایک پولنگ یا کچھ مخصوص پولنگ اسٹیشن کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے اور کسی قسم کے دستاویزات اس درخواست کے ساتھ منسلک نہیں ہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ اس کے بعد 11 بجے دن کا وقت کنسولیڈیشن کے لئے مقرر ہوا اور ہمارے امیدوار بتائی ہوئی جگہ پر مقررہ وقت پر پہنچ گیا تھا لیکن وہاں کوئی موجود نہیں تھا اور اس کے چند گھنٹے کے بعد اسلام آباد سے دوبارہ گنتی کا فیصلہ آجاتا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کے پس پشت کوئی طاقتیں ہیں جنہوں نے کنسولیڈیشن کے عمل کو نہ صرف رکوایا بلکہ بغیر کسی ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کے دوبارہ گنتی کی درخواست کو منظور کرکے فیصلہ دیا۔

انہوںنے کہا کہ ہمارے پاس 2018 کے انتخابات میں درجنوں ایسے حلقہ ہیں جہاں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو انتہاہی کم ووٹوں سے ہروایا گیا اور وہاں مسترد ووٹوں کی تعداد بھی اس کی کئی گنا زیادہ تھی لیکن ہماری دوبارہ گنتی کی درخواست جو تمام شواہد کے ساتھ تھی لیکن اس کو منظور نہیں کیا گیا۔ انہوںنے کہا کہ سانگھڑ کے پی ایس 41 میں پیپلز پارٹی کے معشوق چانڈیو، پی ایس 21 سے پیپلز پارٹی کے سراج راچپڑ، ایم اے 237 سے حکیم بلوچ، پنجاب میں فیصل صالح حیات سمیت کئی حلقوں پر صرف چند سو ووٹوں سے پیپلز پارٹی کو ہروایا گیا اور اس کے شواہد کے باوجود الیکشن کمیشن نے ان حلقوں میں ہماری دوبارہ گنتی کی درخواست کو مسترد کرکے فوری طور پر ان حلقوں میں کنسولیڈیشن کا کام پورا کروایا تاکہ دوبارہ گنتی کی درخواست غیر موثر ہوجائے۔

انہوںنے کہا کہ گذشتہ روز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واضح کہا ہے کہ جس طرح حلقہ این اے 249 میں دوبارہ گنتی کی درخواست الیکشن کمیشن نے منظور کی ہے اب ہمارے پاس یہ جواز ہے کہ ہم 2018 کے انتخابات میں واضح شواہد موجود ہیں کہ وہاں پیپلز پارٹی کو ہروایا گیا ہے، ان حلقوں میں بھی اب دوبارہ گنتی کی جاسکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ووٹرز باکس کو فوج کے حوالے کرنے کا مسلم لین نون کا مطالبہ ان کی اصل سوچ اور نیت کو بے نقاب کرتا ہے۔

کیونکہ وہ ایک جانب الیکشن کے عمل میں فوج کی مداخلت نہ ہونے کا ڈھونڈورہ پیٹتے ہیں تو دوسری جانب وہ الیکشن کے عمل میں فوج کو شامل بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اصل حدف موجودہ نااہل، نالائق اور سلیکٹیڈ حکومت کی نااہلیوں کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا تھا لیکن مسلم لیگ نون کی قیادت نے اپنی شکست تسلیم کرنے کی بجائے پیپلز پارٹی پر بے بنیاد دھاندلی کے الزامات لگا کر عوام اور میڈیا کو تقسیم کیا ہے۔

انہوںنے کہا کہ مسلم لیگ نون نے موجودہ نااہل حکومت کے خلاف مہم کی بجائے اس کا رخ پیپلز پارٹی کی جانب پھیڑنے کی کوشش کی ہے، اس کے پس پشت بھی جو عوامل ہیں اس سے عوام اچھی طرح واقف ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے پیپلز پارٹی پر استعفیٰ نہ دینے کا الزام لگایا تو آج وہ قوم کو بتائیں کہ جو جماعتیں آج شامل ہیں انہوں نے کیوں ابھی تک استعفیٰ نہیں دئیے۔

انہوں نے کہا کہ صرف الزامات عائد کرنے سے کسی پارٹی کا عوام میں امیج متاثر نہیں کیا جاسکتا۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ 276 پولنگ اسٹیشن کا ٹرن آئوٹ کم و بیش یکساں ہے اور کسی ایک بھی پولنگ اسٹیشن کے نتیجے کا دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ یہاں کسی قسم کی کوئی دھاندلی ہوئی ہے۔ انہوںنے کہا کہ پورے این اے 276 میں کوئی ایک ایسا پولنگ اسٹیشن ایسا نہیں ہے، جہاں پیپلز پارٹی کو 300 سے زائد ووٹ ملے ہوں جبکہ ان کے مدمقابل پی ٹی ایل کو 400 تک کے ایک پولنگ اسٹیشن سے ووٹ ملیں ہیں۔

ایک اور سوال پر انہوںنے کہا کہ آصف علی زرداری نے پہلے ہی کہا تھا کہ نیب اور معشیت ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور آج شوکت ترین بھی یہی کہہ رہا ہے کہ نیب سے بیور کریسی ڈری ہوئی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ سپریم کورٹ نے کروبا کے حوالے سے وفاق اور این سی او سی کے فیصلوں پر تمام صوبائی حکومتوں کو عمل درآمد کا پابند بنایا ہے اور اس حوالے سے جو فیصلے این سی او سی کررہی ہے، ہم اس پر عمل درآمد کروا رہے ہیں البتہ 18 ترمیم کے بعد جو محکمہ صوبائی خودمختاری کے تحت ہیں اس کے حوالے سے ایس سی او سی کے اجلاس میں طے کرلیا جاتا ہے کہ صوبوں کو کیا کرنا ہے۔

پولیس کی جانب سے کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کرنے کے تاجروں کے احتجاج کے سوال پر سعید غنی نے کہا کہ جرمانے اسی لئے کئے جاتے ہیں کہ وہ کام دوبارہ نہ کیا جائے۔