پیپلزپارٹی کا کشمیرکمیٹی کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ

کمیٹی کا نام کشمیر اور فلسطین رکھا جائے تاکہ فلسطین کا ایشو اجاگر کیا جا سکے،فرحت اللہ بابر

بدھ 5 مئی 2021 23:59

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 05 مئی2021ء) پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینزکے سیکریٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کا نام تبدیل کرکے اس کا نام کشمیر کمیٹی برائے کشمیر اور فلسطین رکھنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ فلسطین کا ایشو اجاگر کیا جا سکے۔ اس کمیٹی کی سربراہی ایک سینئر قابل احترام پارلیمنٹیرین کریں جو ان امور سے آگاہ ہوں اور انسانی حقوق کے بارے میں وہ بالکل مخلص ہوں۔

فرحت اللہ بابر نے یہ بات نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے یوم القدس منانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر کے ایشوز بنیادی طور پر انسانی حقوق کے ایشو ہیں۔ پاکستان سے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے کشمیر میں دخل اندازی کی وجہ سے کشمیر کاز کی کوئی مدد نہیں ہوئی۔

(جاری ہے)

اس کی بجائے بھارت کو یہ موقع ملا کہ وہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو سرحد پار سے دہشتگردی سے جوڑ دے۔

بدقسمتی سے دنیا بھر نے مودی کی اس تشریح کو تسلیم کر لیا اسی لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے سوائے پاکستان کے دنیا کے کسی لیڈر نے اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کا کیس ایک بہت بڑی سانحہ ہے اور عوام سے غداری ہے۔ فلسطین کی آدھی آبادی دیگر ممالک میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے رہنے پر مجبور ہے اور باقی آدھی آبادی اسرائیل کے طلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔

فلسطین کے عوام نے اس وقت شدید درد اور غم محسوس کیا جب حال ہی میں یو اے ای، بحرین، سوڈان اور مراکش نے فلسطینیوں کے لئے ایک الگ آزاد وطن حاصل کئے بغیر اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ پاکستان کو مشرق وسطی میں کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے بحران شدید تر ہو جائے کیونکہ اس وجہ سے فلسطین کا کیس بھی متاثر ہوگا۔ یمن کے خلاف اسلامی اتحاد میں شامل ہونا مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے مترادف تھا اور اس اتحاد میں شامل ہونے سے احتراز کیا جا سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب اس بات کی کوششیں ہو رہی ہیں کہ یمن میں تنازعہ کو کم کیا جائے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سابق آرمی سربراہ کو جو اسلامک کولیشن فورسز کی سربراہی کر رہے ہیں واپس بلا لیا جائے۔ یمن کے بچے جب جوان ہو جائیں گے تو کبھی ان لوگوں کو معاف نہیں کریں گے جو ان کی تکالیف کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے جانے جائیں گے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ فلسطین میں انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کے اندر اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر کرے۔

اسرائیل فلسطینیوں کو خود ان کی سرزمین پر آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم ان کے لئے آزادی کا مطالبہ کس طرح سے کر سکتے ہیں جب ہم نے اپنے سابقہ قبائلی اضلاع کو کے پی میں ضم ہونے کے باوجود نو گو ایریا بنا دیا ہے اور ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر خاردار تاریں لگانے کے بعد گوادر کے شہر کو بھی خاردار تاریں لگا کر بند کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سرحدوں پر خارداریں لگانے کی بجائے افغانستان اور ایران سے تعلقات بہتر کرے۔