وزیراعظم عمران خان سعودی عرب دورے پر عمرہ کرنے نہیں بلکہ قرضہ لینے کے لیے گئے ہیں

جون کے بجٹ کے بعد حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں،سینئر صحافی طاہر ملک کا دعویٰ

Sajjad Qadir سجاد قادر جمعرات 6 مئی 2021 08:13

وزیراعظم عمران خان سعودی عرب دورے پر عمرہ کرنے نہیں بلکہ قرضہ لینے ..
اسلام آباد (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔ 6 مئی 2021ء ) اس وقت آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سعودی عرب کے دورہ پر ہیں جبکہ وزیراعظم پاکستان کاد ورہ بھی شیڈول کر دیا گیا ہے اور 27رمضان المبارک کو وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ عمرہ بھی ادا کریں گے۔تاہم یہ تو وہ خبر تھی جو ہمارے میڈیا چینلز میں بیان کی جا رہی تھی مگر اس دورے کی حقیقت کچھ اور ہے جس پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے سینئر صحافی طاہر ملک نے نجی ٹی وی چینل کے اپنے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ کوئی نجی دورہ یا عمرہ کرنے کے لیے خاص طور پر ڈیزائن نہیں کیا گیا بلکہ اس وقت پاکستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں اور اوپر سے بجٹ بھی آنے والا ہے۔

جبکہ تازہ ترین وزیرخزانہ بنے شوکت ترین نے بھی آئی ایم ایف کے منصوبے کو ناکارہ قرار دے دیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے اور یہ ہم نے سیاسی قیمت چکائی ہے۔

(جاری ہے)

سینئر صحافی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں جبکہ جون میں ہم نے چار بلین ڈالر کا قرضہ بھی واپس کرناہے۔انہوں نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ ہم نے سالانہ دس ارب ڈالر قرضہ ادا کرنا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ بھی کئی مسائل معیشت کو درپیش ہیں۔

لہٰذا حکومت کے پاس سسٹم کو چلانے کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں۔انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے ساتھ کچھ معاملات کے حوالے سے ہماری ان بن ہو گئی تھی اور عملی طور پر ہمارے تعلقات معطل ہو گئے تھے تب پاک آرمی نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے بہترین مثبت کردار اد اکیا اور ہم اس قابل ہوئے کہ سعودی عرب نے دوبارہ ہم سے بات چیت کی۔

اگر پاک آرمی اپنا کردار اد انہ کرتی تو ہمارے تعلقات اور بھی خراب ہونے تھے۔سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ اب ایک نیا اسلامک کوریڈور بننے جا رہاہے کہ پاک آرمی نے حکومت کی مشاورت سے سعودی عرب، ایران اور روس کو سی پیک میں انویسٹمنٹ کے لیے تیار کر لیا ہے اور ا س سے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا بلاک بن جائے گا مگر پھر امریکہ بھی درمیان میں کودے گا اور یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ان کا پریشر کس طرح برداشت کرتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کو غریب عوام کی حالت زار بھی مدنظر رکھنی چاہیے اور کچھ پالیسیاں انہیں بھی ریلیف دینے کے لیے بنانی چاہئیں۔