پاکستان کی توجہ ڈیجیٹل مالی سروسز میں مزید بہتری پرہونی چاہیے،سابق گورنرسٹیٹ بنک

پیر 10 مئی 2021 23:28

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 مئی2021ء) پاکستان کی توجہ ڈیجیٹل مالی سروسز میں مزید بہتری کی جانب ہونی چاہیے تاکہ ایسے افراد خصوصاً خواتین کو اس سسٹم میں شامل کیا جائے جو روایتی مالی سسٹم کا حصہ نہیں ہیں، خوشی ہے کہ کار انداز پاکستان اپنی توجہ اس جانب مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ان خیالات کا اظہار کار انداز پاکستان کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان سلیم رضانے ایک ویبینار میں کیا جس میں ملک میں کورونا وبا کے دوران مالی رویوں پرمرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے حال ہی میں مکمل کیے جانے والے سروے کے نتائج کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا۔

اس قومی سروے کی ڈیزائننگ اور تشکیل بین الاقوامی میڈیا کمپنی کے اشتراک سے کی گئی اور اس کیلئے چھ تہی فنانشل انکلوژن انسائٹس (ایف آئی آئی) سروے کیا گیا۔

(جاری ہے)

اس سروے میں ملک میں مجموعی مالی شمولیت کے ساتھ موبائل منی اور دیگر ڈیجیٹل مالی سروسز تک رسائی اور ان کے استعمال کی تفصیلی جانچ کی گئی۔ سروے کے مطابق ملک میں بالغوں کی مجموعی مالی شمولیت کورونا سے پہلے 21 فیصد تھی جو گزشتہ سال کے اواخر میں بڑھ کر 25فیصد ہو گئی جس کی وجہ خالصتاً موبائل منی کی سہولیات اختیار کرنا تھا۔

رجسٹرڈ بالغ صارفین کی موبائل منی اکاؤنٹ ملکیت کورونا سے پہلے 9 فیصد تھی جو گزشتہ سال کے اواخر میں بڑھ کر 16 فیصد ہو گئی۔ اسی عرصے کے دوران بینک اکاؤنٹ رکھنے والے صارفین کی تعداد میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی،تاہم مشاہدہ میں آیا کہ 2020 کے دوران کورونا کی وجہ سے صنفی توازن میں نمایاں کمی ہوئی۔ خواتین کی مالی شمولیت 6 فیصد سے بڑھ کر11 فیصد ہو گئی۔

سلیم رضا کا کہنا تھا کہ تحقیق کے مطابق خواتین میں موبائل منی اکاؤنٹ کی ملکیت کا تناسب گزشتہ سال کورونا سے پہلے 2فیصد تھا جو سال کے اواخر میں بڑھ کر6 فیصد ہو گیا یعنی تین گنا اضافہ ہوا۔ یہ بلاشبہ ایک خوش آئند امر ہے جوثابت کرتا ہے کہ اگر ہم حقیقی طور پر مالی شمولیت میں قومی سطح پر بہتری کے خواہاں ہیں تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو ٹیکنالوجی پر مشتمل سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔ویبینار کے دیگر شرکاء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پیمنٹ سسٹمز ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر سہیل جواداور کار انداز پاکستان کے سی ای او وقاص الحسن شامل تھے۔