جنرل باجوہ کا افغانستان کا اچانک دورہ

DW ڈی ڈبلیو پیر 10 مئی 2021 20:40

جنرل باجوہ کا افغانستان کا اچانک دورہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مئی 2021ء) پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پیر 10 مئی کا یہ دورہ ایک نہایت نازک صورتحال کے دوران عمل میں آیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے شروع ہونے پر شدید غیر یقینی حالات نظر آ رہا ہیں۔ ایسے میں جنول باجوہ کا یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

اس دورے کے بارے میں کابل میں مقامی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا۔ دریں اثناء پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ یا تعلقات عامہ کے دفتر نے جنرل باجوہ کے دورہٴ افغانستان کے بارے میں گزارش پر بھی کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔

افغانستان: امریکا کا مزید جنگی طیارے بھیجنے کا فیصلہ

افواج پاکستان کے سربراہ کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں عمل میں آیا جب افغانستان سے امریکی اور نیٹو کے دیگر ممبر ممالک نے اپنی افواج کو واپس بلا لینے کے کام کا آغاز کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

اُدھر ملک میں آئے دن تشدد اور خونریزی ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔ جنرل باجوہ کے اس دورے کے بارے میں فی الحال واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پڑوسی ملک کے اس دورے کے دوران کن موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ افغانستان اور خطے میں پاکستان کو ایک کلیدی فریق کی حیثیت حاصل ہے۔

زخمی افغانستان کی ادھوری کہانی

افغان امن عمل میں بھی اسلام آباد کا غیر معمولی کردار سمجھا جاتا ہے۔

ماضی میں پاکستان پر افغانستان کے باغی طالبان عناصر کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے تاہم حالیہ چند سالوں کے دوران واشنگٹن انتظامیہ اور مغربی طاقتوں نے اس امر کا اعتراف کرنا شروع کیا ہے کہ پاکستان نے عسکریت پسند گروپ کو امن مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔

پیر کو ہی پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے ادرے آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا کہ جنرل باجوہ نے برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل نیکو لس پیٹرک سے ملاقات کی ہے اور دونوں کے مابین افغانستان کے امن مذاکرات سے متعلق بات چیت ہوئی ہے۔

آئی ایس پی آر نے تاہم اس ملاقات کے مقام کے بارے میں نہیں بتایا۔

افغانستان: جنگ میں شدت، لوگ گھر چھوڑنے پر مجبور

اُدھر حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان اور سفارتی ذرائع نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ پاکستان طالبان باغیوں سے مذاکرات کی کوشش کر رہا ہے اور انہیں جنگ بندی پر پابند رہنے، امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی توسیع کرنے، جس کی شرط یہ رکھی گئی تھی کہ امریکا اور دیگر غیر ملکی افواج ماہِ مئی تک افغانستان سے نکل جائیں گی، پر قائم رہنے اور امن مذاکرات کے سلسلے میں ترکی میں ایک کانفرنس کے طے شدہ انعقاد میں حصہ لینے پر اصرار کر رہا ہے۔

افغانستان کا آخری یہودی ملک چھوڑنے کے لیے تیار

ان تمام اقدامات کے باوجود حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں تشدد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ طالبان نے ملک بھر میں حملے شروع کر دیے ہیں۔ دہشت گردی کے تازہ ترین واقعے میں گزشتہ ہفتے کے روز کابل کے ایک اسکول پر ہولناک حملے کی تاحال کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ افغان طالبان نےکابل میں لڑکیوں کے ایک اسکول پر حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔

اس بم حملے میں کم از کم پچاس جانیں ضائع ہو ئیں جن میں اکثریت بچیوں کی تھی۔ افغانستان میں طالبان نے عیدالفطر کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی جنوبی صوبے زابل میں ایک بس پر بم حملہ کیا گیا، جس میں کم از کم گیارہ لوگ مارےگئے۔ طالبان کے کہنا ہے کہ جنگ بندی عید کا چاند نظر آنے کے بعد سے شروع ہوگی۔

ک م/ ع ح )رائٹرز(