کابل ،سکول میں بم دھماکہ حکومت کی جانب سے امن عمل کو متاثر کرنے ،امریکی انخلاء کو روکنے کا حربہ ہے،افغان طالبان

پیر 10 مئی 2021 23:51

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 مئی2021ء) افغان طالبان نے گزشتہ روز کابل میں سکول پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ یہ کابل حکومت کی جانب سے امن عمل کو متاثر کرنے اور امریکی انخلاء کو روکنے کا حربہ ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان (افغان طالبان) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز کابل کے علاقے دشت برچہ میں ہولناک بم دھماکے اور راکٹ حملوں کے نتیجے میں سید الشہداء اسکول کے متعدد طلباء اور اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا، جس میں ہمارے ملک کے 100 کے قریب شہریوں کو اپنے خون میں نہلا دیا گیا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کابل کے حساس علاقوں میں کابل انتظامیہ کی کرپٹ اور قاتل فورسز کے سامنے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

(جاری ہے)

اس سے قبل بھی ایسے المناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ امارت اسلامیہ نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے اور اس جرم کو کابل کے ظالم اور سفاک حکومت کا آخری حربہ اور مذموم اقدام قرار دیا جو امن کے سازگار مواقع کو سبوتاڑ کرنے اور خاص طور پر امریکی فوجیوں کے انخلا کو سوالیہ نشان بنانی کے لئے یہ ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا پر یہ واضح کرے اگر غیر ملکی افواج افغانستان سے چلی گئیں تو افغانستان میں اس طرح کے المناک واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔

گزشتہ روز کابل انتظامیہ کے سربراہ نے ایک بزدلانہ تقریر میں کابل اور دیگر شہروں میں نام نہاد سول سوسائٹی کے کارکنوں، میڈیا اور سیاستدانوں پر زور دیا کہ وہ مظاہروں اور احتجاجی تحریک کے ذریعے مغرب اور یورپ کو طالبان کے خلاف اس پر قائل کریں کہ وہ خواتین کے حقوق کے لئے پرعزم ہیں لہذا ان کے ساتھ جاری امن عمل پر دوبارہ غور کیا جائے۔اشرف غنی کے ان خیالات کے اظہار کے بعد گزشتہ روز کابل میں لڑکیوں کے ہائی اسکول پر دھماکے اور راکٹ حملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ امن عمل کو سبوتاڑ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ دنیا کو بتائیں کہ طالبان خواتین کے حقوق اور تعلیم کے مخالف ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ داعش نے کابل کے اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ داعش درحقیقت کابل حکومت کے خفیہ ادارے کا ایک مخصوص گروہ ہے جس کا امارت اسلامیہ نے گزشتہ سال ننگرہار اور اس سے پہلے شمالی علاقوں میں تعاقب کیا تو اس دوران انہیں میدان جنگ سے ہیلی کاپٹروں میں محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تاکہ ان کے ذریعے دشت برچی جیسے المناک واقعات کرائے جائیں اور فرقہ واریت کو ہوا دی جائے۔