کورونا وائرس کی بھارتی قسم پوری دنیا کیلئے لمحہ فکریہ قرار

عالمی ادارہ صحت نے بھارت میں تباہی مچانے والی کورونا وائرس کی قسم کو دنیا بھر کیلئے خطرہ قرار دے دیا

muhammad ali محمد علی پیر 10 مئی 2021 23:31

کورونا وائرس کی بھارتی قسم پوری دنیا کیلئے لمحہ فکریہ قرار
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 10 مئی2021ء) عالمی ادارہ صحت نے بھارت میں تباہی مچانے والی کورونا وائرس کی قسم کو دنیا بھر کیلئے خطرہ قرار دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھارت میں پھیلنے والے کورونا وائرس کو انتہائی خطرناک قرار دے کر عالمی برادری کو خبردار کیا گیا ہے۔ کورونا وائرس سے متعلق ڈبلیو ایچ او کی ٹیکنیکل لیڈ ماریا وین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بھارت میں تباہی مچانے والی کورونا وائرس کی قسم پوری دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے، وائرس کی یہ قسم اب تک کئی ممالک میں پھیل چکی ہے۔

ڈبلیو ایچ او حکام کے مطابق بھارت میں تباہی مچانے والی کورونا کی اس قسم کی اکتوبر 2020 میں ہی نشاندہی کر دی گئی تھی۔ اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن کا کہنا ہے کہ بھارت میں گردش کرنے والی کورونا وائرس کی نئی قسم زیادہ متعدی اور ممکنہ طور پر ویکسین سے ملنے والے تحفظ کو کم کرسکتی ہے، جس کے باعث وہاں کووڈ کی وبا بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

(جاری ہے)

ایک انٹرویو کے دوران سومیا سوامی ناتھن نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں وبا کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے عندیہ ملتا ہے کہ وہاں کورونا کی نئی قسم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔سومیا سوامی ناتھن نے کہا کہ بھارت میں گردش کرنے والی کورونا کی قسم بی 1617 کو سب سے پہلے اکتوبر 2020 میں دیکھا گیا تھا اور اس نے ہی بھارتی سرزمین میں کووڈ کی وبا کو تباہ کن بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وبا کی صورتحال بگڑنے کے متعدد عوامل ہوسکتے ہیں، بہت تیزی سے پھیلنے والا وائرس ان میں سے ایک ہے۔تاہم امریکا اور برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے طبی حکام نے کہا کہ وہ بی 1617 کو باعث تشویش تصور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بی 1617 ممکنہ طور پر باعث تشویش بن جانے والی قسم ہے، کیونکہ اس میں کچھ میوٹیشنز سے اس کے پھیلاو کی رفتار بڑھی ہے اور ممکنہ طور پر یہ ویکسین یا بیماری سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے۔

تاہم انہوں نے زور دیا کہ اس نئی قسم کو بھارت میں کیسز اور اموات کی شرح میں ڈرامائی اضافے کا واحد ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ وہاں لوگوں نے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ بھارت جیسے بڑے ملک میں وائرس کا پھیلاو کم شرح سے جاری رہ سکتا ہے اور ایسا ہی وہاں کئی ماہ سے ہورہا تھا۔انہوں نے بتایا کہ اس شرح میں بتدریج اضافہ ہوا اور ابتدائی علامات کو دیکھا نہیں جاسکا اور اس کے نتیجے میں صورتحال موجودہ سطح پر پہنچ گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت وبا کو دبانا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں لاکھوں افراد شامل ہیں اور جس رفتار سے وہ پھیل رہا ہے، اسے روکنا بہت مشکل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صرف ویکسینز کے ذریعے موجودہ صورتحال کو قابو میں کرنا ممکن نہیں ہوگا۔انہوں نے نشاندہی کی کہ ویکسین بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت میں صرف 2 فیصد افراد کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 70 سے 80 فیصد آبادی کی ویکسینیشن میں کئی سال نہیں تو کئی ماہ ضرور لگ سکتے ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ وائرس کے پھیلاو کی شرح کم کرنے کے لیے طبی اور سماجی اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔سومیا سوامی ناتھن نے کہا کہ وائرس جتنی زیادہ نقول بنائے گا اور پھیلے گا، اتنا زیادہ امکان ہے کہ اس میں مزید میوٹیشنز ہوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ وائرس کی اقسام میں متعدد ایسی میوٹیشنز ہوسکتی ہیں جو موجودہ ویکسینز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہیں اور یہ پوری دنیا کے لیے مسئلہ ہوگا۔