فواد چوہدری نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کی مکمل داستان عوام کے سامنے رکھ دی

حدیبیہ پیپرملز کیس تقریباً 1242 ملین روپے کے فراڈ کی کہانی ہے جو بلحاظ حجم پانامہ پیپرز کیس سے بڑی ہے، اس فراڈ کیلئے بہت ہی زبردست طریقہ اختیار کیا گیا، شریف خاندان کے نامزد افراد نے منی لانڈننگ اور اثاثے چھپانے جیسے گناہ ہی نہیں کیے بلکہ یہ بہت سے ریاستی و حکومتی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بھی مرتکب ہوئے۔ وفاقی وزیر کا بیان

Sajid Ali ساجد علی منگل 11 مئی 2021 11:34

فواد چوہدری نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کی مکمل داستان عوام کے سامنے رکھ ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔ 11 مئی 2021ء ) وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھ دیں۔ تفصیلات کے مطابق اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ اس فراڈ کیلئے بہت ہی زبردست طریقہ اختیار کیا گیا ، حدیبیہ پیپرملز کیس تقریباً 1242 ملین روپے کے فراڈ کی کہانی ہے جو بلحاظ حجم پانامہ پیپرز کیس سے بڑی ہے اور جس کی ابتداء 2000ء میں اس وقت ہوئی جب نیب حکام نے حدیبیہ پیپرز کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا ، نواز شریف کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نواز، شہباز شریف اور ان کے سیاسی وارث حمزہ شہباز بھی اس کے مرکزی کردارہیں ، اسحاق ڈار نے اس فراڈ میں شریف خاندان کی معاونت کیلئے بیرونی کرنسی کے جعلی بے نامی اکاؤنٹس کھلوائے ، پکڑے جانے پر اسحاق ڈار وعدہ معاف گواہ بنے اور انہوں نے متعلقہ حکام کو اپنا تفصیلی بیان بھی ریکارڈ کروایا مگر بعد میں یہ کہہ کر کہ ان سے یہ بیان زبردستی لیا گیا، اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔

(جاری ہے)

فواد چوہدری نے بتایا کہ حدیبیہ پیپر ملز پرائیویٹ لمیٹیڈ کے ریکارڈ کی پڑتال کے دوران نیب اسلام آباد کے تحقیق کاروں پر یہ انکشاف ہوا کہ 97-1996 اور 98-1997 کے دوران کمپنی کے کھاتوں میں بالترتیب 30 اعشاریہ 499 ملین اور 612 اعشاریہ 273 ملین روپے بطور شیئر ڈیپازٹ ظاہر کئے گئے ہیں ، وہ کمپنی جس کا اس سرمایہ کاری سے قبل حجم محض 95 اعشاریہ 7 ملین اور مجموعی خسارہ 809 اعشاریہ 834 ملین روپے تھا، میں اتنی بھاری رقوم کی آمد نے تحقیق کاروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا چنانچہ نیب نے 1999ء کے نیب آرڈیننس کے تحت معاملے کی پڑتال کے احکامات صادر کردیے ، اس دوران تحیقات سے پتہ چلاکہ ملز انتظامیہ جو میاں محمد شریف، شمیم اختر، نواز شریف، شہباز شریف، عباس شریف، مریم صفدر، صبیحہ عباس، حسین نواز اور حمزہ شہباز پر مشتمل ہے کی تجوریوں میں بھاری بھرکم غیرقانونی سرمایہ موجود ہے اور وہ اس دولت کے ذرائع بتانے سے قاصر ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان لوگوں نے منی لانڈرنگ کیلئے 1992 کے دی پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ کی مختلف شقوں کا سہارا لیکر دھوکے سے بیرونی کرنسی کے مختلف جعلی کھاتے کھولے اور بہت سی دولت ان کھاتوں میں جمع کروائی ، جب یہ جعلی اکاؤنٹس کا بھانڈا پھوٹ گیا تو انہوں نے یہ پیسہ حدیبیہ پیپر ملز کے اکاؤنٹس میں اس طرح براہِ راست ڈالنے کا فیصلہ کیا،اس مقصد کیلئے انہوں نے اس مل کے اکاؤنٹس کیلئے اس بیرونی کرنسی کی مالیت کے برابر مختلف ڈالر ٹیلی گرافک ٹرانسفرز (ٹی ٹیز) کا بندوبست کیا۔

فواد چوہدری کے مطابق بالکل اسی طرح جیسے ابھی شہباز شریف اور مریم نواز کی رقوم پاکستان سے باہر بھیجی گئیں، 1242 اعشاریہ 732 ملین روپے اچانک شریف فیملی کے اثاثوں میں آگئے یہ رقم پانامہ اسکینڈل سے بھی بڑی تھی ، نیب نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مزکورہ واردات کے ذریعے شریف خاندان کے ان نامزد افراد نے منی لانڈننگ اور اثاثے چھپانے جیسے گناہ ہی نہیں کیے بلکہ یہ بہت سے ریاستی و حکومتی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بھی مرتکب ہوئے ہیں ، مشرف دور میں جب یہ معاملہ احتساب عدالت کے روبرو آیا کیس کے دوران ہی شریف فیملی نے مشرف حکومت کے ساتھ ڈیل کی اور سعودی عرب چلے گئے، ستمبر 2008ء میں معاملہ دوبارہ اٹھایا گیا لیکن پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مک مکا نےکیس پھر رکوا دیا ، کہا گیا کیس نہیں چل سکتا چئرمین نیب کے دستخط نہیں ہیں۔

وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات نے مزید بتایا کہ شریف خاندان نے کارروائی کو لاہور ہائیکورٹ کے روبرو چیلینج کیا تو 2 رکنی ڈویژن بنچ نے 1،1 سے منقسم فیصلہ سنایا یوں معاملہ ریفری جج کے پاس چلا گیا جس نے مقدمے کی بندش کا فیصلہ کرنے والے ڈویژن بنچ کے جج کی رائے کی حمایت کا فیصلہ دیا، اور مقدمہ 2014 میں بند کردیا گیا ، دلچسپ بات یہ تھی کہ اتنی تفصیلی تفتیش کے بعد اس کیس کا ایک دن بھی عدالتی ٹرائل نہیں ہوا، جس جج نے کیس بند کرنے کا فیصلہ دیا پانامہ اسکینڈل میں انکشاف ہوا کہ ان جج صاحب کے اپنے اثاثے بھی بیرون ملک تھے، بدقسمتی سے ان جج صاحب کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہیں ہوئی ، اس مقدمے میں اب کچھ نئے حقائق بھی سامنے آئے ہیں جن پر نئی تفتیش کا فیصلہ کیا گیا ہے امید ہے عدلیہ ان ججوں پر بھی کاروائی کرے گی جنہوں نے شریف فیملی کی معاونت کی، انصاف کا تقاضا ہے کہ تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں، پاکستان کا مستقبل قانون کی حکمرانی سے وابستہ ہے۔